بلدیاتی انتخابات: پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا مزید نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 18 جنوری 2023
الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات سے موازنہ کرنا غیر مناسب ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
الیکشن کمیشن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات سے موازنہ کرنا غیر مناسب ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے 2 روز بعد بھی حتمی نتائج کا اعلان نہ ہوسکا اسی دوران سیاسی جماعتیں اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کرتی دکھائی دیں البتہ الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج کو حتمی شکل دینے میں مزید ایک روز لگ سکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نتائج میں تاخیر کے الزامات بے بنیاد اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔

16 جنوری کو کراچی کی 235 یونین کونسلز کے اعلان کردہ نتائج کے مطابق جماعت اسلامی نے 86 نشستیں حاصل کیں تاہم ایک روز بعد انہوں نے مزید 3 نشستوں پر کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی نے بھی دعویٰ کیا کہ چنیسر گوٹھ کی یونین کونسل نمبر 6 میں دوبارہ گنتی کے بعد پیپلزپارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہے، قبل ازیں اس یونین کونسل سے جماعت اسلامی کامیاب ہوئی تھی۔

صوبائی الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ان دعوؤں کی تصدیق نہ تردید کرتے ہوئےکہا کہ الیکشن کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں، 16 جنوری کو آنے والے نتائج میں پارٹی پوزیشن میں تبدیلی آسکتی ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکام علی اصغر سیال نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسر اور پولنگ اسٹاف کی جانب سے الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے بعد وہ ریٹرنگ افسر کی نگرانی میں حتمی نتائج کو مرتب کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ 16 جنوری کو آنے والے نتائج عارضی تھے تاہم ان نتائج کو ابھی تک حتمی عمل سے گزرنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امید ہے کہ حتمی مرحلہ بدھ (18 جنوری) کو مکمل ہوجائے گا، مجھے نہیں معلوم کہ سیاسی جماعتیں کیا دعوے کررہی ہیں لیکن جب نتائج کاحتمی اعلان ہوجائے گا تو ممکنہ طور پر پارٹی پوزیشن میں تبدیلی آسکتی ہے۔

حالیہ دعوؤں کے مطابق جماعت اسلامی نے 16 جنوری کو 86 سے 89 نشستوں پر کامیاب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں مزید 3 یونین کونسلز ( 2 کراچی غربی اور ایک ضلع شرقی ) میں دوبارہ گنتی کے بعد جماعت اسلامی کے کامیاب ہونے کے حوالے سے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا، جہاں ان یونین کونسل میں اس سے قبل 16 جنوری کی شب پیپلزپارٹی کو ’غیرقانونی‘ طور پر فاتح قرار دیا جارہا تھا۔

جماعت اسلامی نے 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے ’شفاف اور منصفانہ نتائج‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے ضلع غربی کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر دھرنا دیا جہاں خواتین اور بچوں سمیت پارٹی کے کئی کارکنان مظاہرین میں شامل تھے۔

امیر جماعت اسلامی اور میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا تھا کہ ’ان 3 یونین کونسل کے علاوہ ہم مزید 6 یونین کونسل میں بھی ہم کامیاب ہوئے ہیں جہاں پیپلزپارٹی اپنی فتح کا دعویٰ کررہی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس اپنے دعوؤں کی دستاویزی شواہد موجود ہیں اس لیے جس طرح ہم ان 3 یونین کونسل میں شواہد کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں اسی طرح مزید 6 یونین کونسل میں بھی کامیاب ہوں گے، اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد دیگر یونین کونسل ہیں جہاں ہم ناکام ہوئے ہیں لیکن ہمیں شکوک و شبہات ہیں، ہم ان کے نتائج کو چیلنج کریں گے اور دوبارہ گنتی کا مطالبہ کریں گے، ہماری نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ پہلے منصفانہ نتائج سامنے لائیں پھر کوئی بات چیت ہوگی۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی نے جماعت اسلامی کے ساتھ مفاہمت کا انداز اپنایا ہے، انتخابات کے نتائج میں کسی بھی قسم کے بحث میں جانے کے بجائے پیپلزپارٹی کراچی کے صدر سعید غنی نے جماعت اسلامی کو ’کراچی کے بہترین مفاد کی خاطر‘ مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے’۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں پیپلزپارٹی کی جیت سے حیران ہیں وہ غالباً غافل ہیں کہ پیپلزپارٹی کے 5 رکن قومی اسمبلی اور 7 رکن صوبائی اسمبلی کراچی سے ہیں’۔

سعید غنی نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس صرف ایک رکن صوبائی اسمبلی ہے انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ یہاں پیپلزپارٹی کے بجائے جماعت اسلامی کی کامیابی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جماعت اسلامی کو مشورہ ہے کہ اگر انہیں کسی بھی حلقے کے نتائج میں تحفظات ہیں تو وہ ان کے نتائج کو چیلنج کریں البتہ میں انہیں کراچی کی ترقی کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کی بھی دعوت دیتا ہوں۔ ’

نتائج میں تاخیر کے الزامات بے بنیاد اور لاعلمی پر مبنی ہیں، ترجمان الیکشن کمیشن

اسی دوران الیکشن کمیشن کی ترجمان قرۃ العین فاطمہ نے اپنے بیان میں کہا کہ نتائج میں تاخیر کے الزامات بے بنیاد اور لاعلمی پر مبنی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ انتخابات کے نتائج میں تاخیر نہیں ہوئی، انہوں نے یاددہانی کروائی کہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی نتائج 3 دن میں مکمل ہوئے تھے۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات سے موازنہ کرنا غیر مناسب ہے

تبصرے (0) بند ہیں