رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

میں بچپن میں جو کتابیں پڑھتی تھی ان میں سے ایک کہانی میں کچھ بچے ایک ایسی جگہ چلے جاتے ہیں جسے ٹوپسی ٹَروی لینڈ کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس جگہ پر ہر چیز الٹی تھی۔ وہاں انسان سر کے بل چلتے تھے، گاڑیوں کے پہیے چھتوں پر تھے، کھڑکیاں کھلتی نہیں تھیں اور دروازے بند نہیں ہوتے تھے۔

وہ بچے اس جگہ چلتے رہے اور اپنی عادت کے مطابق کام کرتے ہوئے غلطیوں پر غلطیاں کرتے رہے۔ یہ ان کی سزا تھی اور جب یہ سزا ختم ہوئی تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔

پاکستانی بچوں بلکہ پاکستانی بڑوں کو شاید کہانی کے ان بچوں جتنی مشکل نہ ہو۔ گزرے 3 برسوں میں ہم نے تقریباً ہر ثابت شدہ سچائی اور مفروضے پر سوالات اٹھتے دیکھے ہیں۔

جس دوران میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں اس دوران ملک کی کرنسی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے روپے کی کم ترین قدر کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ منگل کے روز روپے کی قدر میں کچھ بہتری آنا شروع ہوئی تھی جس کی وجہ ماہرین کے مطابق ترسیلاتِ زر اور برآمدات تھی لیکن ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اب بھی ابتر ہے اور نہ جانے آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں کتنی کمی آتی ہے۔

چند روز قبل وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے پاکستانی ٹی وی چینلز پر پاکستانیوں کو بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے اضافہ کیا جائے گا۔ وہی حکومت جو ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالنے پر اپنی تعریفیں چاہتی تھی، اس نے مقررہ تاریخ سے 2 دن پہلے ہی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کردیا۔

ملک میں ہر جگہ پیٹرول کے حصول کے لیے لمبی لائنیں دیکھی جاسکتی تھیں کیونکہ لوگوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ یہ اس اضافے کا صرف پہلا مرحلہ ہے اور تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ اس وقت ہوگا جب قیمتوں کے تعین کے لیے کرنسی کی نئی قدر کو استعمال کیا جائے گا۔ شاید آپ میں سے کچھ لوگ پیٹرول کے حصول کے لیے لگی طویل قطار میں کھڑے اس مضمون کو پڑھ رہے ہوں گے۔

ویسے پیٹرول کے حصول کے لیے لائنوں میں لگے افراد مالی طور پر ایسے لوگوں سے بہتر ہیں جن کے پاس پیٹرول کے حصول کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ حال ہی میں، ڈان نے ملک میں ٹیکسٹائل کے شعبے میں 70 لاکھ نوکریاں ختم ہونے کی خبر دی۔ یہ ایک خوفناک تعداد ہے خاص طور پر جب آپ اس حقیقت پر غور کریں کہ ملک میں ایسے قصبے اور شہر ہیں جن کی پوری معیشت کا انحصار ٹیکسٹائل کی صنعت پر ہے۔

مِلوں کی بندش اور ان میں سے کچھ کے مستقبل قریب میں دوبارہ نہ کھلنے کے امکانات کی وجہ سے ان شہروں اور ان میں رہنے والے اور ٹیکسٹائل کے شعبے سے کمانے والے لوگوں کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پاکستان میں ایک فرد کم از کم 4 یا 5 افراد کے خاندان کی کفالت کرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مِلوں کی بندش سے تقریباً ساڑھے 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہوں گے۔ یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ مِلوں پر انحصار کرنے والے دیگر کاروبار بھی کس طرح متاثر ہوں گے۔

ٹیکسٹائل صنعت کے نمائندوں نے ڈان کو بتایا کہ موجودہ حکومت کے پاس ’ٹیکسٹائل پروڈیوسرز اور برآمد کنندگان کو درپیش مختلف بحرانوں سے نمٹنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے‘۔

یہ حکومت واضح طور پر اس صنعت کو ترجیح نہیں دے رہی ہے۔ لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں تاخیر کا مطلب ہے کہ درآمد شدہ سامان وقت پر نہیں منگوایا جاسکتا اور اس کا مطلب ہے کہ مِلیں نہیں چلیں گی۔ یہ امر اس وجہ سے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ یہ صنعت درحقیقت اپنی برآمدات سے غیر ملکی کرنسی (جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے) کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے۔

موجودہ سیاسی سیٹ اپ ان لوگوں کے لیے بہت مایوس کن ہے جو ملک میں استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ حکومت جسے ڈرامائی طور پر ہٹا دیا گیا تھا اور موجودہ حکومت کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا کھیل شدید ہوتا جارہا ہے اور ماحول کو بدستور خراب کر رہا ہے۔

فریقین میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ دونوں ہی کے پاس مسائل کا حل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے موجودہ حکمران ہوں یا پہلے والے، سب نے ہی بہت قرض لے رکھے ہیں جنہیں اب ادا کرنا ہے۔ بالآخر انتخابات تو ہونے ہیں لیکن دیگر اداروں کی طرف سے کسی بھی مداخلت کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر نتائج کو تسلیم کرنا مشکل ہوگا۔

پاکستانی عوام بجلی کی بندش کے عادی ہیں لیکن بجلی کا حالیہ بریک ڈاؤن اس حقیقت کا کافی ثبوت ہے کہ حکومت واقعی نہ بتیاں روشن رکھ سکتی ہے، نہ گیس کی فراہمی برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ ہی پانی فراہم کرسکتی ہے، جو کم از کم کراچی میں تو ایک بہت بڑے مافیا کے ہاتھ میں ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بجلی اور دیگر بنیادی اشیا کی فراہمی کو تقریباً ناممکن بنا دے گا۔ آگے گرمیاں بھی آنے والی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور برف پگھلنے کے عمل میں بے ترتیبی کی وجہ سے رواں برس بھی سیلاب اور قحط کا امکان ہے۔ جہاں کبھی بارشیں رحمت ہوا کرتی تھیں اب وہ مزید مصائب کا سبب بنتی ہیں اور دریاؤں کے راستوں میں موجود تمام چیزوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ جو لوگ ان زمینوں پر آباد ہیں وہ آنے والے وقت کے بارے میں فکر مند ہیں۔

یہ عام حالات نہیں ہیں، یہ واقعی خوفناک حالات ہیں۔ یہ سوچنا مشکل ہے کہ آیا ملک میں دولت، غربت اور عدم مساوات کی مخصوص حرکیات ہی اس سطح کی نااہلی کو ممکن بناتی ہیں۔

غریب خاموش ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں محض بقا کی جنگ بن کر رہ گئی ہیں۔ امیر اپنی شاہانہ شادیوں اور مہندیوں میں بدستور خوش ہیں جہاں کھانے کو خوب ضائع کیا جاتا ہے۔ متوسط ​​طبقہ اس طرح کے مضامین لکھتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ حالات بہتر ہونے والے نہیں ہیں، وہ جانتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے امیر ٹیکس ادا نہیں کرتے، جس کے سیاستدان بدمعاشی کے عادی ہیں اور جہاں سچائی کی تلاش انتہائی مشکل ہو وہ ملک ٹوپسی ٹَروی لینڈ ہی بنا رہے گا۔


یہ مضمون یکم فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں