ندال حسن کے خلاف درج مقدمے کی سماعت کا تصویری خاکہ۔ فوٹو رائٹرز

ٹیکساس: ایک امریکی جیوری نے القاعدہ سے متاثرہ امریکی فوجی افسر کو ٹیکساس کے فورٹ ہڈ اڈے پر فائرنگ کر کے 13 افراد ہلاک کرنے کے الزام میں سزائے موت سنا دی دی ہے۔

فوجی افسران پر مشتمل جیوری کی خاتون سربراہ نے مختصر مشاورت کے بعد 42 سالہ میجر ندال حسن کو سزا سنانے کا اعلان کیا۔

جیوری کے صدر کی حیثیت سے میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں آپ سب کو بتاؤں کہ جیوری کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر سزا دینے، تنخواہ اور الاؤنسز ختم کرنے، سروس سے برطرفی اور سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سماعت کے دوران جیوری کے سامنے وہیل چیئر پر بیٹھے ملزم حسن نے فیصلہ سنا جہاں انہوں نے اپنا مقدمہ خود لڑتے ہوئے دفاع کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ کوئی گواہ یا ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔

امریکی فوجی قوانین کے تحت سزائے موت کے خلاف خود بخود ایک طریقہ کار کے تحت اپیل ہو جاتی ہے جس میں سالوں صرف ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد فیصلے کے خلاف سویلین کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے جہاں پھر اپیل رد ہونے کی صورت میں کسی بھی مجرم کو سزائے موت دینے کیلیے صدر کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

سزائے موت کے فیصلوں کو اکثر تبدیل کیا جاتا رہا ہے اور 1961 سے کسی بھی فوجی پر اس سزا کا اطلاق نہیں ہوا۔

حسن نے سماعت کے دوران کسی بھی موقع پر الزامات کی تردید نہیں کی جس پر عدالت کی جانب سے ان کے دفاع کیلیے مقرر کیے گئے اٹارنی نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔

فلسطینی نژاد امریکی شہری حسن 2005 کے بعد سزائے موت پانے والے امریکی فوج کے پہلے رکن ہیں جہاں اس سے قبل حسن اکبر کو یہی سزا سنائی گئی تھی جنہوں نے کویت میں 2003 میں دو فوجی ساتھیوں پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ بدھ کو سزا پانے والے ندال نے پانچ نومبر 2009 میں ٹیکساس کے فورٹ ہڈ اڈے پر طبی امداد کی فراہمی کی جگہ پر فائرنگ کر دی تھی جس کے نتیجے میں 12 فوجی ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے تھے۔

اس موقع پر ایک پولیس اہلکار نے حسن پر جوابی فائرنگ کی تھی جس کے باعث ان کا آدھا دھڑ مفلوج ہو چکا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ حسن عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کشی کے مخالف تھے اور انہوں نے انٹرنیٹ پر القاعدہ کے مشتبہ جنگجو اور امریکی شہری انوار ال الاکی سے بات کی تھی جو یمن میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

سماعت کے بعد حسن کو فورٹ ہڈ کی مقامی جیل میں واپس منتقل کر دیا گیا جہاں وہ گزشتہ تین سال سے قید ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں