لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی نے ایک خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ اب یہ ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کررہی ہے۔ یہ صورتحال کچھ اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہی ہےجبکہ تمام اداروں کو سیاسی تنازعات کے دلدل میں دھکیل رہی ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے ملک انتشار کی جانب جارہا ہے اور حالیہ دنوں میں ہونے والی پیش رفت اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔

شروعات صدرِ مملکت عارف علوی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں میں ہونے والی تکرار سے کرتے ہیں۔ یہ تنازع اس بات پر شروع ہوا کہ جنوری میں تحلیل ہونے والی پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں انتخابات کی تاریخ کسے دینی چاہیے۔

صدر عارف علوی نے الیکشن کمیشن سے فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کو کہا تھا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کا بھی مطالبہ تھا۔ یہ مؤقف بھی اپنایا گیا کہ اگر الیکشن کمیشن ایسا کرنے میں ناکام ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی میں شمار ہوگا۔ اس کے بعد صدر نے پھر مشاورت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو مدعو کیا جسے کمیشن نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے۔ ایک خط میں کمیشن نے صدر کی جانب سے اختیار کی جانے والی زبان پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ کمیشن ’اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہے‘۔

یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا اور صدر عارف علوی نے یک طرفہ طور پر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ 9 اپریل دے دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس اقدام کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عارف علوی نے آئین کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو۔ صدرِ مملکت کے اس اعلان کے ردِعمل میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سے رجوع کیا جنہوں نے کہا کہ صدر کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار موجود نہیں ہے۔

کچھ دنوں بعد ہی چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور اسے ’آئینی طور پر انتہائی اہم‘ قرار دیا۔ 9 اراکین پر مشتمل خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا جو اس بات کا تعین کرے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کسے حاصل ہے۔ اس معاملے پر جلد ہی سماعت کا آغاز ہوگیا جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اپنی مختلف آرا کا بھی اظہار کیا۔

ملکی تاریخ میں کبھی بھی ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن جیسے دو اہم ریاستی ادارے اس طرح عوامی سطح پر آمنے سامنے نہیں آئے۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم صدارت اور انتظامی جیسے دو آئینی اداروں کے ٹکراؤ کے شاہد بنے۔

اس تنازع کی بنیاد یہ ہے کہ اتحادی حکومت آئین کے مطابق 90 دنوں کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروانے سے ظاہری طور پر انکاری ہے۔ یہ امر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تعینات کردہ 2 صوبوں کے گورنرز اور وفاقی وزرا کے بیانات سے واضح ہے۔

پی ڈی ایم حکومت اور عمران خان کی پی ٹی آئی کے درمیان جاری شدید محاذ آرائی کی وجہ سے اب عدالتیں سیاسی جنگ کے میدان کی صورت اختیار کرچکی ہیں۔ جب دونوں اپنے آپسی معاملات سلجھا نہیں پاتے تب وہ عدالتوں کا رخ کرلیتے ہیں جن سے امید ہوتی ہے کہ وہ قانون کے بجائے سیاسی ثالث کا کردار ادا کریں گی۔ پھر جب فیصلہ کسی مخصوص جماعت کے مفاد میں نہیں ہوتا تب وہ عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ان پر جانب داری کا الزام عائد کرتے ہیں۔

دونوں فریق ہی عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح اپنے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ گزشتہ ہفتے عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اس سے واضح ہوگیا تھا کہ یہ عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے ہی کیا گیا تھا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی عدالتوں پر براہِ راست تنقید کرتے ہیں اور ان پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ مریم نواز نے سرگودھا میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 2 موجودہ ججوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے عدلیہ کو پارلیمنٹ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ماضی میں تمام فیصلے سیاسی مفادات کومدِنظر رکھ کر لیے گئے تھے یا پھر عوامی مفادات کو؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے الزام عائد کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے ساتھ ترجیحی رویہ اختیار کیا ہے۔ کئی ججوں نے سیاسی رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو حل کرنے کے لیے عدالتوں کا سہارا نہ لیں لیکن ان مشوروں پر کان نہیں دھرے گئے۔ سیاسی معاملات کو اعلیٰ عدلیہ تک لے جانا درحقیقت ان کے کردار کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تنازعات کی زد میں بھی لیتا ہے نتیجے کے طور پر اس شدید منقسم سیاسی صورت حال میں عدلیہ پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

سیاسی محاذ پر اس سنگین صورتحال نے عدالتوں کو مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔ اس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ بھی تقسیم ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے پہلے ہی یہ اعتراض کیا جاچکا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے کی کیا واقعی کوئی بنیاد تھی۔

سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے وکلا اب بینچوں کی تشکیل پر بھی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں جج کو اس کیس سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ ملک کی عدلیہ برادری کے چند ارکان کو تو مختلف سیاسی مقدموں میں اعلیٰ عدلیہ درمیان بھی تصادم کا خدشہ ہے۔

اس دوران سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مختلف وقتوں میں موجودہ سیاسی کھیل کے دونوں فریقوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔ جب اقتدار عمران خان کے ہاتھ میں تھا تب جنرل قمر جاوید باجوہ پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تنقید کے نشتر برسائے جاتے تھے جو انہیں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے اور 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کی جیت کے پیچھے اہم کردار کہتے ہیں۔

جب سے قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہوئے ہیں تب سے عمران خان نے ان پر تنقید شروع کردی ہے اور وہ انہیں اقتدار سے ہٹانے اور ’بدعنوان پی ڈی ایم حکومت‘ کو ملک پر مسلط کرنے کی سازش کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جنرل باجوہ سے ملاقات کرنے والے صحافی نے عمران خان کے بارے میں جنرل باجوہ کی جو تنقید بیان کی ہے اس نے اس تنازع اور لفظی جنگ کو مزید ہوا دی۔

عمران خان نے صدرِ مملکت کو خط بھی لکھا اور کہا کہ وہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے قمر جاوید باجوہ کے خلاف اپنے ’حلف کی خلاف ورزی‘ کرنے پر ’فوری انکوائری‘ کروانے کا حکم دیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بھی اس حوالے سے بیانات دے کر اس تنازع کو مزید تقویت دی۔

ان تلخ بیانات سے عمران خان دورِ حکومت کی ہائبرڈ نوعیت کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔ لیکن اس طرح کے عوامی تنازعات میں ملک کے سابق سپہ سالار کا ملوث ہونا فوج کی ساکھ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ واضح ہے کہ سابق آرمی چیف کے اقدامات سے ان کے ادارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور اس سے ادارے کے کردار پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ماضی میں شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ملک کی سیاسی صورتحال میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار عوام، میڈیا اور ناقدین کی اس قدر توجہ کا مرکز رہا ہو۔

گمان ہوتا ہے جیسے ریاست کا ہر ادارہ ہی اس سیاسی طوفان کی لپیٹ میں آرہا ہے اور اس سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ چیز ملک کو ایک ایسی صورتحال کی جانب دھکیل رہی ہے جہاں اداروں کی حدود، ساکھ، سالمیت اور ان کی حیثیت پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ اگر اداروں پر عوامی اعتماد ختم ہوتا ہے اور اگر ان کی قانونی حیثیت کو مجروح کیا جاتا ہے تو یہ ملک کو ایسی حالت میں ڈال دے گا جہاں اس کا انتظام چلانا ناممکن ہوجائے گا۔


یہ مضمون 27 فروری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں