اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا جس کے بعد شرح سود 20 فیصد پر پہنچ گئی، جو 1996 کے بعد بلند ترین شرح ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ شرح سود 300 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 20 فیصد کر دی جائے گی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ مہنگائی اور بیرونی اور مالی توازن کے حوالے سے توقعات میں بگاڑ کا مظہر ہے۔

مرکزی بینک نے کہا کہ زری پالیسی کمیٹی کا ماننا ہے کہ یہ شرح مہنگائی کو درمیانی مدت کے 5 سے 7 فیصد تخمینے کے اندر رکھنے کی ضامن ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ زری پالیسی کمیٹی نے نشان دہی کی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی ضروری ہے لیکن اس کے لیے بیرونی صورت حال کی بہتری کے لیے سنجیدہ کوششیں درکار ہیں۔

بیان میں زور دیا گیا ہے کہ کسی قسم کی مالی بگاڑ سے مستحکم قیمتوں کے مقصد کے حصول میں مؤثر زری پالیسی پر اثر پڑے گا۔

اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 2 مارچ کو ہوگا۔

’جنوری میں ظاہر کیے گئے خدشات حقیقت بن گئے‘

اسٹیٹ بینک کی جانب سے زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ جنوری میں اپنے گزشتہ اجلاس میں کمیٹی نے مہنگائی کی صورت حال بیرونی اور مالیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درپیش قریب المدت خطرات اجاگر کیے تھے۔

بیان میں مذکورہ خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان میں سے بیشتر خطرات حقیقت بن گئے ہیں اور فروری میں مہنگائی کے اعداد و شمار میں جزوی طور پر ان کی عکاسی ہوتی ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی مہنگائی بالحاظ صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) بڑھ کر 31.5 فیصد سال بہ سال ہو چکی ہے جبکہ فروری 2023 کے دوران جزوی طور پر مہنگائی شہری علاقوں میں 17.1 فیصد اور دیہی علاقوں میں 21.5 فیصد ہوگئی۔

اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ زری پالیسی کمیٹی نے اجلاس میں نشان دہی کی کہ حالیہ تبدیلیوں اور ایکسچینج ریٹ میں کمی کے نتیجے میں مہنگائی کے مختصر مدتی صورت حال میں خاصا بگاڑ پیدا ہوا ہے اور مہنگائی کے امکانات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

کمیٹی نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگلے چند ماہ میں جب ان تبدیلیوں کا اثر سامنے آئے گا تو مہنگائی مزید بڑھے گی، تاہم بعد ازاں اس میں کمی آنا شروع ہوگی لیکن یہ کمی یک دم نہیں بلکہ بتدریج ہوگی۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ رواں برس اوسط مہنگائی ممکنہ طور پر 27 سے 29 فیصد کے درمیان ہوگی جبکہ نومبر 2022 میں 21 سے 23 فیصد کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

اعلامیے کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ مہنگائی کی توقعات پر قابو پانا بےحد ضروری ہے اور اس کے لیے مضبوط پالیسی ردعمل چاہیے۔

’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے باوجود خامیاں برقرار‘

اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیٹی نے نشان دہی کی ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں نمایاں کمی کے باوجود خامیاں برقرار ہیں، جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 24 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا جو مارچ 2021 سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2023 میں جولائی تا جنوری 3.8 ارب ڈالر تھا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 67 فیصد کم ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اس کمی سے قطع نظر شیڈول کے مطابق قرضوں کی ادائیگی اور رقوم کی آمد میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی عالمی شرح سود اور ملکی بےیقینی کی کیفیت زر مبادلہ کے ذخائر اور ایکسچینج ریٹ پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں اور بیرونی صورت حال بہتر بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تکمیل سے مدد ملے گی۔

’حالیہ مالیاتی اقدامات سے بنیادی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘

اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ جی ایس ٹی اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے، سبسڈیز میں کمی، توانائی کی قیمتوں میں ردّوبدل اور کفایت شعاری کی مہم سمیت حالیہ مالیاتی اقدامات سے توقع ہے کہ بڑھتے ہوئے مالیاتی اور بنیادی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

کمیٹی نے مزید بتایا کہ مالی استحکام کو لاحق خطرات قابو میں ہیں کیونکہ مالی اداروں کے پاس کافی سرمایہ موجود ہے تاہم نمو پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ آج کے فیصلے نے پیش بینی کی بنیاد پر حقیقی شرح سود کو مثبت سمت میں گامزن کردیا ہے، جس سے مہنگائی کے خدشات پر قابو پانے اور مہنگائی کو مالی سال 2025 کے آخر تک 5 تا 7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لے جانے میں مدد ملے گی۔

اسٹیٹ بینک کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ زری پالیمی کمیٹی نے اپنا اگلا اجلاس 4 اپریل 2023 کو طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل 23 جنوری کو بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 16 فیصد سے بڑھا کہ 17 فیصد کردی ہے، گزشتہ 2 ماہ میں مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے مگر اس کے باوجود بھی بنیادی مہنگائی میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی برقرار ہے کیونکہ جس نئی رقوم کی ہم توقع کر رہے تھے اس میں کچھ تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دباؤ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے عالمی سطح پر معاشی ترقی کی حالیہ پیش گوئی میں تنزلی دکھائی جارہی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ میں بےیقینی کی صورت حال برقرار ہے جس کے اثرات ہماری مارکیٹ پر پڑتے ہیں۔

جمیل احمد نے کہا تھا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ بڑھانے کا فیصلہ ملک کی بیرونی اور مالیاتی پوزیشن کا تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ حقیقی شعبے کی ترقی میں اسٹیٹ بینک نے گزشتہ ماہ اپنی مانیٹری پالیسی میں اس کی پیش گوئی 2 فیصد کی تھی مگر اس وقت توقع ہے کہ بیرونی خسارے کی وجہ سے اس میں کچھ رسک ہے اس لیے تھوڑا تنزلی کا دباؤ آسکتا ہے۔

بعد ازاں اسٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ کمیٹی نے نومبر میں اپنے آخری اجلاس کے بعد سے تین بڑی اقتصادی پیش رفتوں پر غور کیا جس میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران بنیادی افراط زر میں اضافے کا رجحان ظاہر ہونے سے افراط زر کی شرح مسلسل بلند رہنا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پالیسی کی وجہ سے سکڑاؤ اور زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے باوجود بیرونی شعبے کے لیے چیلنجز میں اضافہ اور عالمی اقتصادی اور مالیاتی حالات قریب سے مختصر مدت میں بڑے پیمانے پر بےیقینی رہنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر اثرات ہوں گے۔

قبل ازیں 25 نومبر 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا جس کے بعد شرح سود 16 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔

یہ اعلان مرکزی بینک کی زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے، شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں