بنگال سے پنجاب: برطانوی ہند کی فوج میں تبدیلی کیسے آئی؟

بنگالی فوج کے سپاہی 1857ء میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے — تصویر:لکھاری
بنگالی فوج کے سپاہی 1857ء میں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے — تصویر:لکھاری

پنجاب اپنی توسیعی صورت میں ویدک سپتا سندھو یعنی 7 دریاؤں کی زرخیز زمین اور افغانستان کے پہاڑی سلسلوں کے سنگم پر واقع ہے۔ 19ویں صدی کے دوران یہ موجودہ پاکستان اور بھارت میں واقع صوبے پنجاب، اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری، موجودہ پاکستان کے خیبرپختونخوا اور بھارت کے علاقوں ہریانہ، چندیگڑھ، دہلی اور ہماچل پردیش کے چند علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ ایک بڑی ریاست تھی جو تقریباً 3 لاکھ 60 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔

19ویں صدی کے اوائل میں برصغیر میں 2 بڑی اور مضبوط فوجی ریاستیں تھیں۔ ایک مہاراجا رنجیت سنگھ کا پنجاب (1839ء-1780ء) جبکہ دوسری طاقت برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی۔ ایک ایسا بھی دور تھا جب ان دونوں طاقتوں کے درمیان جنگیں لڑی گئیں لیکن 1849ء میں الحاق کے بعد پنجاب برطانوی ہند کی فوج میں سب سے طاقتور قوت بن کر ابھرا۔

یہاں ہم اس کا کچھ مختصر پس منظر بیان کرتے ہیں۔

رنجیت سنگھ بمقابلہ ایسٹ انڈیا کمپنی

پنجاب کی فوج کو مضبوط بنانے کا سہرا رنجیت سنگھ کے سر جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی فوج سکھ یا خالصہ فوج کے طور پر جانی جاتی تھی لیکن اس میں ہندو اور مسلمان بھی مختلف عہدوں پر فائز تھے۔ رنجیت سنگھ نے جدید اور قدیم دور کی جنگی تکنیکوں کے امتزاج کو اپنایا اور اپنے سپاہیوں کو یورپی افسران کی زیر نگرانی تربیت دی۔ اپنی اس فوج کی مدد سے رنجیت سنگھ پنجاب میں مخالف دھڑوں اور قبیلوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوا اور گوریلا جنگی حکمتِ عملی کا استعمال کرتے ہوئے افغان جنگجوؤں کو اپنی سرحدوں سے بےدخل کیا۔ ایک طرح سے اس نے سلطنتِ پنجاب کی بنیاد ڈالی۔

1600ء میں لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام عمل میں آیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی ریاستوں کے ساتھ مسالہ جات، کپڑوں اور دیگر اشیا کی تجارت کی جاسکے۔ اس مقصد کے تحت کمپنی نے یہاں زمینیں خریدیں اور اپنی جائیدادوں کو مقامی افراد اور تجارتی حریفوں سے بچانے کے لیے محافظوں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ بنگال، مدراس اور بمبئی کو انہوں نے پریزیڈینسی کا نام دیا جس کی اپنی افواج ہوتی تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک بلخصوص فرانس کے ساتھ چپقلش کے باعث ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج میں اضافہ ہونے لگا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی 3 افواج میں سے بنگال کی فوج سب سے زیادہ بڑی تھی اور اس کا کمانڈر ان چیف دیگر 2 افواج کا بھی رسمی کمانڈر ہوتا تھا۔ ان افواج کے زیادہ تر سپاہی مقامی لوگ تھے جبکہ ان کے افسران پورپی تھے۔

بنگال کی فوج کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس کے زیادہ تر مقامی سپاہی اونچی ذات کے ہندو تھے جبکہ سپاہیوں کا ایک بڑا حصہ ماضی کی غیرفعال مسلم افواج سے لیا گیا تھا۔ برطانیہ کی جانب سے اپنائی گئی جارحانہ پالیسیوں اور مقامی ہندوستانی ریاستوں میں جاری اندرونی کشمکش کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرحدیں پھیلتی چلی گئیں۔ 1930ء کی دہائی میں کپمنی کی سرحدیں اتنی پھیل گئیں کہ یہ پنجاب کی سرحدوں کے قریب آگئیں جس کی وجہ سے دو قوتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل آگئیں۔

برطانوی ہندوستانی فوج کی 19ویں فوجی رجمنٹ جو نسلی تنوع کو ظاہر کرتی ہے (بائیں سے دائیں آفریدی، سنکھ، بنگش، سواتی، یوسف زئی، پنجابی)
برطانوی ہندوستانی فوج کی 19ویں فوجی رجمنٹ جو نسلی تنوع کو ظاہر کرتی ہے (بائیں سے دائیں آفریدی، سنکھ، بنگش، سواتی، یوسف زئی، پنجابی)

اینگلو پنجاب جنگیں

پنجاب اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کے مابین پہلی اینگلو سکھ جنگ 46-1845ء میں لڑی گئی تھی جس کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب کے چند علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ چند سالوں بعد 49-1848ء میں دوسری جنگ لڑی گئی جوکہ 21 فروری 1849ء کو اختتام پذیر ہوئی اور اس کے اختتام پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے پنجاب پر قبضہ کرلیا۔

برطانیہ کے نیشنل آرمی میوزیم کی ویب سائٹ کے مطابق اگرچہ پنجاب کی فوج جنگ ہار چکی تھی لیکن برطانیہ نے اعتراف کیا کہ ’سکھ فوج برصغیر میں انگریزوں کی سب سے زیادہ مضبوط مدمقابل تھی‘۔

پنجاب کے الحاق کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے 2 اپریل 1849ء کو برطانوی ہندوستان میں پنجاب کے انضمام کا باضابطہ اعلان کیا اور اسے بنگال پریزیڈنسی کے تحت ایک صوبہ بنا دیا۔ انگریزوں نے پنجاب کی فوج کو ختم کردیا اور سپاہیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے گاؤں اور قصبوں میں واپس چلے جائیں تاکہ وہ فوج میں ملازمت کے بجائے زراعت یا دیگر کام شروع کرکے گزر بسر کرسکیں۔

برطانوی نوآبادیات کے ایک طبقے نے بنگال کی فوج میں اعلیٰ تربیت یافتہ پنجابی سپاہیوں کو بھرتی کرنے کے خیال کی حمایت کی لیکن اس اقدام پر بنگال فوج میں موجود اعلیٰ ذات کے ہندو اور مسلمان فوجیوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اس حقیقت سے واقف تھی کہ افغانستان ہمیشہ سے ہندوستان کے لیے مسائل اور انتشار کا ذریعہ رہا ہے کیونکہ یورپ، وسطی ایشیا اور فارس سے آنے والے زیادہ تر حملہ آور افغانستان کے راستے ہی ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں رنجیت سنگھ نے افغانستان کے ساتھ برصغیر کی سرحدوں کو موثر انداز میں محفوظ رکھا تھا۔ تاہم پنجاب کے الحاق کے بعد اب یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ذمہ داری تھی کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے۔

افغانستان اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت نے سرحد کے حوالے سے برطانیہ کے خدشات کو تقویت دی۔ برطانوی نقطہِ نظر سے روس ان کی ہندوستانی سلطنت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ اسی نقطے کو ذہن میں رکھتے ہوئے 1851ء میں پنجاب ارریگولر فورس کو فعال کیا گیا۔ اس کو ارریگولر (بےقاعدہ) اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تینوں افواج کی کمان کے ماتحت نہیں تھی بلکہ یہ براہِ راست پنجاب حکام کے زیرِ اثر تھی۔

1857ء کی جنگ آزادی؟

1857ء کی پہلی جنگِ آزادی یا جسے ’غدر‘ بھی کہا جاتا ہے کے بعد پنجاب اور پنجابی سپاہیوں کے ساتھ برطانوی حکام کے رویوں میں تبدیلی آئی۔ 10 مئی 1857ء کو بنگال کے فوجی دستوں میں اس وقت بغاوت کا آغاز ہوا جب مقامی سپاہیوں نے انگریز کمانڈروں کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ جلد ہی یہ بغاوت ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیلتی گئی جہاں عوام بھی ان باغیوں کی حمایت میں نکلنا شروع ہوگئے۔

اسی موقع پر پنجابی سکھ فوجی برطانوی افواج کی حمایت میں بغاوت کے خلاف کھل کر سامنے آئے۔ مذہبی اقلیت ہونے کی حیثیت سے انہیں اونچی ذات کے ہندوؤں یا مسلمانوں سے لڑنے میں کوئی عار نہیں تھی۔ انگریزوں کو لگا جیسے بنگالیوں نے ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے اور وہ سکھ سپاہیوں کے شکرگزار تھے کہ انہوں نے ضرورت کے وقت ان کا ساتھ دیا۔

آئندہ سالوں میں انگریزوں نے بڑی تعداد میں پنجابی سکھ سپاہیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کرنے کیا اور یہ تعداد ہندوستان کے کسی دوسرے خطے سے زیادہ تھی۔ لوگوں کو فوجی خدمات سرانجام دینے کی جانب راغب کرنے کے لیے انہوں نے انعامات دینے کا بھی آغاز کیا۔

انعام کے طور پر زمینوں کی فراہمی؟

برطانوی پالیسی کی یہ خصوصیت تھی کہ انگریز وفاداری کا صلہ اور مخالفت پر سزا دیتے تھے۔ پنجاب بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ تھا جہاں زمینداروں کی تعداد کم لیکن ان کی زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ سید حسین شہید سہروردی نے ایڈنبرگ پیپرز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ، غربت میں زندگی گزارنے والے ’ان کسانوں کے لیے بہترین تحفہ زرعی زمینیں تھیں‘۔ انگریزوں نے ’وفاداری اور بہادری کے بدلے اور ریٹائرمنٹ کے بعد‘ زمین دینے کرنے کی پالیسی وضع کی جس نے دیہاتوں میں رہنے والے پنجابیوں کو اپنی جانب راغب کیا۔

زمین کی الاٹمنٹ کے علاوہ، فوج کی نوکری نے ’غذائیت کی کمی، کم تنخواہ اور بدسلوکی کا شکار‘ پنجاب کے کسانوں کو ’تنخواہ، وردی اور عزت‘ جیسے فوائد بھی فراہم کیے۔

سید حسین شہید سہروردی نے یہ بھی لکھا کہ ’بھرتی ہونے والوں میں بڑی تعداد شمالی پنجاب کی سالٹ رینج اور پوٹھوہار کے علاقوں (بلخصوص جہلم، راولپنڈی اور اٹک) اور شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) کے ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جہاں کسان انتہائی بدتر حالات میں زندگی گزار رہے تھے‘۔

لاکھوں ایکڑ بنجر زمینوں کی زرعی زمینوں میں تبدیلی برطانوی حکومت کی نام نہاد ’کینال کالونیوں‘ کے نتیجے میں ممکن ہوئی جس میں آباپاشی کے نظام کے ذریعے زمینوں کو ایک بار پھر زرخیز بنایا گیا۔ ان کالونیوں سے جہاں ایک جانب صوبے کی زرعی پیداوار کو بڑھانے میں مدد ملی وہاں زمینوں کی الاٹمنٹ کے نتیجے میں حکومت کے وفادار شہریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔

پنجاب کے لوگوں کی بڑی تعداد کا فوج میں بھرتی ہونے سے بالواسطہ فائدہ یہ ہوا کہ قومی دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ بالآخر تنخواہوں، پنشن اور اس طرح کے دیگر اخراجات کی مد میں صوبے کے حصے میں آیا۔ اس وجہ سے صوبے کی معیشت میں بہتری آئی اور دیہی قرضے بھی کم ہوئے۔

یوں وفاداری کا انعام دینے کی انگریزوں کی اس پالیسی نے طویل عرصے تک صوبے میں انگریز مخالف یا قوم پرست تحاریک کو ابھرنے نہیں دیا۔

سکھوں سے مسلمانوں تک

ابتدا میں برطانوی ہند کی افواج کا ایک بڑا حصہ سکھوں پر مشتمل تھا۔ درحقیقت 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد پنجاب کے مسلمان سپاہی انگریزوں کے لیے قابلِ اعتماد نہیں رہے تھے اور یہ بات 1861ء تک فوج میں ان کی کم ہوتی تعداد سے بھی واضح ہوتی ہے۔ اگرچہ 1861ء کے بعد فوج میں پنجابی مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تاہم اگلی نصف صدی تک فوج میں سکھوں کی تعداد زیادہ رہی۔

بعدازاں سکھ فوجیوں کی تعداد میں بتدریج کمی اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کے پیچھے 3 وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ پنجاب میں سکھوں کی آبادی 10 سے 15 فیصد تھی جوکہ فوج میں ملازمت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سکھوں کی بڑی تعداد نے انہیں یا ان کے آباؤاجداد کو الاٹ ہونے والی زمینوں پر کھیتی باڑی کرنے کو فوج میں بھرتی ہونے پر ترجیح دی۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ 20ویں صدی کے اوائل میں ہونے والی انگریز مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے انگریزوں نے ان کی وفاداری پر شک کرنا شروع کردیا تھا۔

مارشل ریس تھیوری

مارشل ریس تھیوری بنیادی طور پر انگریزوں نے برصغیر کے شمال اور شمال مغربی علاقوں سے فوجیوں کی بھرتی کے جواز کے طور پر پیش کی تھی۔ اس نظریے کی بنیاد یہ تھی کہ ہندوستان میں مخصوص نسلی گروہ، ثقافتی اور جینیاتی طور پر جنگ لڑنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے فوج میں خدمات کے لیے یہ دیگر علاقوں کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ موزوں ہیں۔

لہٰذا انگریزوں نے پنجاب کے لوگوں کو جنگجو قوم (مارشل ریس) سمجھا، یہ دعویٰ ایڈن کمیشن کی گزارشات میں میں بھی نظر آیا جس کے تحت 1879ء میں اعلان کیا گیا کہ ’پنجاب ہندوستان میں جنگجو قوم کا سب سے بڑا مسکن ہے‘ اور یہ بہترین سپاہیوں کی نرسری ہے۔

اس نظریے کے سب سے بڑے حامیوں میں سر مائیکل فرانسس اوڈائر بھی شامل تھے جو امرتسر میں جلیانوالہ باغ قتلِ عام کے دوران پنجاب کے گورنر تھے۔ 1925ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’انڈیا ایز آئی نو اِٹ‘ میں انہوں نے لکھا کہ ’اگر ہندوستان میں 30 کروڑ سے زائد لوگوں کی حفاظت کے لیے صرف 75 ہزار انگریزوں (جن کی تعداد اب 60 ہزار رہ گئی ہے) اور ایک لاکھ 60 ہزار ہندوستانی فوجیوں کی ہی خدمات حاصل کرنی ہیں تو اس کام کے لیے بہترین لوگوں کو بھرتی کرنا ہی دانشمندی تھی اور یہ لوگ اکثر پنجاب میں ہی پائے جاتے تھے‘۔

سر مائیکل فرانسس اوڈائر نے پنجاب کی مارشل ریس کا مزا اس وقت چکھا جب 1940ء میں ویسٹ منسٹر لندن میں ایک اجلاس کے دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے ادھم سنگھ نے انہیں گولی مار کر قتل کردیا۔ ادھم سنگھ نے بتایا کہ وہ جلیانوالہ باغ قتلِ عام کا انتقام لینا چاہتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس نے جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش بھی نہیں کی۔

اپنے بیان میں اس نے کہا کہ ’میں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ میرے دل میں اس کے خلاف بغض تھا۔ وہ اسی قابل تھا۔۔ وہ میرے لوگوں کے عزم کو کچلنا چاہتا تھا تو میں نے اسے ہی کچل دیا۔ مادرِوطن کی خاطر موت سے بڑھ کر مجھے اور کیا اعزاز نصیب ہوسکتا ہے؟‘

  دہلی کے الحاق کے بعد برطانوی پنجاب کا نقشہ
دہلی کے الحاق کے بعد برطانوی پنجاب کا نقشہ

برطانوی فوج میں پنجاب کا حصہ

1857ء کے بعد برطانوی ہند کی فوج میں پنجابی سپاہیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1929ء میں یہ تعداد اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس وقت پورے ہندوستان (نیپال کو چھوڑ کر جہاں سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کی تعداد 19 ہزار تھی)کے کل ایک لاکھ 39 ہزار 200 فوجیوں میں سے پنجاب سے بھرتی ہونے والوں کی تعداد 86 ہزار تھی ۔ اگر فیصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجابی سپاہی ہندوستانی فوج کا تقریباً 62 فیصد تھے۔

یہاں تک کے اگر اس میں نیپالی فوجیوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو پنجابی فوجی تب بھی نصف سے زائد تھے اور فوج کی کل ایک لاکھ 58 ہزار 200 تعداد کا 54.36 فیصد بنتے تھے۔

1929ء کا اسکیچ میپ آف انڈیا، جو کمشنروں، انسپکٹرز اور دیگر کی رپورٹس کی صورت میں شائع ہوا ہے، ہندوستان (اور نیپال) کے مختلف حصوں سے ہندوستانی فوج میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کی ان کے صوبوں یا انتظامی یونٹس کے جغرافیائی رقبے کے مقابلے میں تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ پنجاب کے جغرافیائی رقبے اور اس کے 86 ہزار فوجیوں کا دیگر صوبوں کے رقبے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے چند تو پنجاب سے بھی زیادہ آبادی والے علاقے ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگریزوں نے ہندوستان کے ہر حصے سے مقامی افراد کے فوج میں بھرتی ہونے کی حوصلہ افزائی کی اور اس وقت فوج میں پنجابی سپاہیوں کی تعداد میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ اس وقت ہر صوبہ اپنے مقامی لوگوں کی حوصلہ افزائی کررہا تھا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں۔ نتیجتاً ایسے صوبوں کے بہت سے لوگوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی جنہیں ماضی میں نظرانداز کیا جاتا تھا اور یوں ان کی شرح میں بھی تبدیلی آئی۔ اس سب کے باوجود بھی فوج میں پنجابی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 48 فیصد رہی۔

1947ء میں برصغیر کی تقسیم کی وجہ سے پنجاب کی فوج بھی تقسیم ہوئی۔ غیر منقسم پنجاب کی فوج کےنئے بننے والے دونوں دھڑوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھا ہوا ہے اور فخر کے ساتھ اپنی قوموں کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔


یہ مضمون 5 مارچ 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں