لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات آئین کی مقرر کردہ 90 دنوں کی مدت میں کروانے کا فیصلہ ملکی سیاست میں نئی پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ اسمبلیاں جنوری میں ہی تحلیل ہوچکی تھیں لیکن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت جس نے دونوں صوبوں میں نگراں حکومت قائم کی ہے، اس نے اپنے گورنروں کو انتخابات کی تاریخ دینے سے روک رکھا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ جب صدرِ مملکت عارف علوی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تب حکومت نے ان کے اس اقدام کی مذمت کی جبکہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔

اس الجھن اور غیریقینی کی صورتحال میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئینی اعتبار سے اس اہم اور فوری نوعیت کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا۔ 2-3 سے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کو ہدایت کی ہے کہ وہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ تجویز کریں جبکہ گورنر غلام علی کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق اگر انتخابات 90 دنوں کی مدت میں منعقد نہیں ہوپاتے تو الیکشن کمیشن کو ایسی تاریخ تجویر کرنا ہوگی جوکہ مقررہ ڈیڈلائن سے قریب تر ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اتحادی حکومت کے ترجمانوں نے فیصلے پر سوالات اٹھانا شروع کردیے اور اس کے خلاف بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

فیصلے کی سب سے دلچسپ اور قانونی طور پر عجیب و غریب تشریح اٹارنی جنرل کی جانب سے کی گئی۔ انہوں نے دلیل پیش کی کہ یہ پٹیشن 3-4 سے خارج ہوچکی ہے کیونکہ 2 ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا جبکہ دیگر 2 ججوں نے پہلے سے مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کردیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’اکثریتی فیصلہ‘ حقیقی فیصلے کے خلاف ہے اور یہ حکومت کے حق میں ہے۔

وفاقی وزیرِ قانون نے ٹی وی انٹرویوز میں اس حوالے سے گفتگو کی اور دعویٰ کیا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا کہ ’اس فیصلے کے تناظر میں پی ٹی آئی کی پٹیشن خارج ہوجاتی ہے جبکہ اس پر ازخود سماعت کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی‘۔

حکومت نے فیصلے کی یہ تشریحات کرکے اپنی کمزوری کو ظاہر کیا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ اپنے ممکنہ تصادم کے حوالے سے حکومت کو نقصان دہ صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ فیصلے پر بحث اور تنازعات پیدا کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ انتخابات سے انکار کرنے والی اتحادی حکومت کے حق میں نہیں تھا۔

گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دیا کہ وہ پی ڈی ایم کے تعینات کردہ گورنر بلیغ الرحمٰن سے انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کریں۔ اس فیصلے کو گورنر نے چیلنج کیا اور انٹرا کورٹ اپیل دائر کی۔ بعدازاں، الیکشن کمیشن نے بھی اسی طرح کی اپیل دائر کی۔

حکمراں اتحاد کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ وہ آئینی طور پر اس کے پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے صدر عارف علوی کو خط لکھ کر مشورہ دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات 30 اپریل سے 7 مئی کے دوران کروائے جاسکتے ہیں۔

صدرِ مملکت نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ کی منظوری دی ہے۔ اگر حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرتی ہے تو یہ عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی جس کے بعد توہینِ عدالت کے مقدمات دائر کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔

حکمران اتحاد یا تو اس فیصلے پر ہچکچاہٹ کے ساتھ عمل درآمد کرے یا پھر سیاسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد کرے۔ عمران خان حکومت سے بات چیت کرنے سے انکاری ہیں، اگرچہ ان سے بات چیت کی راہ نکالنا آسان نہیں ہوگا لیکن حکومت کو ان سے روابط قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دونوں فریقین کے اتفاقِ سے عام انتخابات کی تاریخ طے کی جاسکے۔

اگر یہ کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں جس کے لیے عمران خان کو بھی اپنے مزاج کے برخلاف لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تو یوں پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کیے جاسکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔

سپریم کورٹ نے کارروائی کے دوران دونوں فریقین کے وکلا کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی پارٹی قیادت سے عام انتخابات کی متفقہ تاریخ طے کرنے پر مشاورت کریں۔ لیکن سیاسی رہنماؤں نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگرچہ وقت بہت کم ہے لیکن اگر صوبائی اور قومی انتخابات پر فریقین متفق ہوجاتے ہیں تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ عدالت ممکنہ طور پر متفقہ تاریخ کی منظور کرلے گی۔

جبکہ دوسری جانب اگر دونوں فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہوتا تب ملک میں غیرمعمولی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ ایسے میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات اپریل میں جبکہ قومی اسمبلی کی مدت اگست میں ختم ہونے کے بعد اس کے انتخابات اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہوں گے۔

اگر اس صورتحال میں عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو صوبوں میں غیرجانبدار نگراں حکومتوں کے بجائے منتخب حکومتیں ہوں گی۔ یوں آئین کے آرٹیکل 224 کی شق 1 اے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ یہ شق حکومت اور حزبِ اختلاف کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ انتخابات سے قبل نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاقِ رائے قائم کریں۔ جیسے جیسے عام انتخابات نزدیک آتے رہیں گے، توقع یہی ہے کہ اس حوالے سے مزید قانونی چیلنجز بھی ہمارے سامنے آئیں گے۔

لیکن صوبائی اور عام انتخابات کا انعقاد مختلف تاریخوں پر کروانے کے دیگر نتیجہ خیز سیاسی مضمرات بھی ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت قومی انتخابات کو ٹالنے کی کوشش میں ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی صوبائی انتخابات کا معرکہ سر کرلیتی ہے تو عام انتخابات کا محاذ ممکنہ طور پر انہیں کے حق میں ہوگا۔ یوں عمران خان کے پاس سیاسی مومنٹم ہوگا جس کے باعث ان کے لیے جیت حاصل کرنا آسان ہوگا۔

اگر پی ڈی ایم حکومت کو یہ گمان ہے کہ انتخابات ملتوی کرکے وہ آئندہ انتخابات تک اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں تو ان کی یہ منطق کم فہمی لگ رہی ہے کیونکہ چند ماہ میں ان کی موجودہ حیثیت تبدیل ہوکر قابلِ تعریف کیسے بن سکتی ہے؟ اس بات کے تو سب ہی معترف ہیں کہ کمر توڑ مہنگائی، توانائی اور تیل کی اوپر جاتی ہوئی قیمتوں اور تباہ شدہ معیشت کے باعث حکومت عوامی حمایت کھورہی ہے۔

درحقیقت، اگر ’معیشت کو بچانا‘ پی ڈی ایم حکومت کا اقتدار میں آنے کا اولین جواز تھا تو اب یہ جواز کمزور پڑچکا ہے۔ معیشت اب بدحالی کا شکار ہے، آئی ایم ایف معاہدہ بھی غیریقینی ہے، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور مارکیٹ/کاروباری اعتماد تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ بین الاقوامی جائزوں کی ایجنسیوں ایک بار پھر پاکستان کو تنبیہ کررہی ہیں کہ پاکستان قرضوں کے باعث ڈیفالٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔

وزیرِخزانہ کے ناراضی کا اظہار کردینے سے مارکیٹس کی صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ جہاں ملکی استحکام کو سیاسی اور معاشی جیسے بڑے بحران کا سامنا ہے، وہاں ایسے حالات میں انتخابات منعقد کرکے اور تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا ہی شاید موجودہ دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔


یہ مضمون 7 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں