لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

ہر سفر کا آغاز پہلا قدم اٹھانے سے ہی ہوجاتا ہے۔ یہ قدم ماؤزے تنگ نے اپنے لانگ مارچ کے ذریعے اٹھایا جوکہ 16 اکتوبر 1934ء کو شروع ہوا۔ تاہم یہ مارچ اب بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچا ہے۔ اس لانگ مارچ کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے چین کا اپنی منزل کی جانب سفر آج بھی جاری ہے۔

1934ء میں ماؤزے تنگ اور ریڈ آرمی میں موجود ان کے دیگر ساتھی پیچھے ہٹ رہے تھے اور ان کا تعاقب چیانگ کائی شیک کے ماتحت نیشنلسٹ آرمی کررہی تھی۔ 100 برس بعد ریڈ آرمی پیپلز لیبریشن آرمی میں تبدیل ہوچکی ہے جس میں تقریباً 22 لاکھ مستقل فوجی ہیں جبکہ 12 لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج کو ریزرو رکھا گیا تھا۔

دوسری جانب چیانگ کائی شیک کے جانشین آج تائیوان کے جزیرے تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس جزیرے کی حفاظت پر ایک لاکھ 69 ہزار مستقل فوجی معمور ہیں جبکہ 16 لاکھ 60 ہزار فوجی ریزرو رکھے گئے ہیں۔ اس کے سیاسی تسلسل کی امریکا نے بھی ضمانت دی ہے۔

1985ء میں دینگ شیاوپنگ کی قیادت میں عوامی جمہوریہ چین کی دفاعی پالیسی میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی۔ ’پہلے حملہ کرنے، شدید ردِعمل دینے اور ایٹمی جنگ لڑنے‘ کی حکمتِ عملی کے بجائے چین نے ’انتہائی شدت کی جنگ لڑنے کے لیے اپنے جنگی سازوسامان اور اطلاعات کے شعبے کو مضبوط بنانے‘ پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ چین نے ’تعداد پر معیار کو فوقیت‘ دی اور اس مقصد کے تحت اپنی مسلح افواج کو 10 لاکھ تک کم کیا اور اپنی سیاسی قیادت میں 50 فیصد تک کمی لےکر آئے۔

اس کے باوجود چین کے پاس 350 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس یہ تعداد 165 ہے (ایک جوہری ہتھیار تقریباً 5 لاکھ افراد کی جان لے سکتا ہے)۔

تو سوال یہ ہے کہ طاقتور چین نے تائیوان کے جزیرے پر حملہ کیوں نہیں کیا اور اسے حاصل کرنے کے لیے وہ سب کیوں نہیں کیا جیسا 1961ء میں نہرو نے گوا کے ساتھ کیا تھا؟

یہ واضح ہوچکا ہے کہ چین نے ونسٹن چرچل کے مشورے ’جنگ سے بات چیت بہتر ہے‘ کو اپنالیا ہے۔ تائیوان کو سیکیورٹی کونسل سے بےدخل کیے جانے اور عوامی جمہویہ چین کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت کے بعد اس نے افسوس کے ساتھ دیکھا کہ (اور جیسا کہ ماؤ زے تنگ نے کہا بھی تھا) اقوامِ متحدہ طاقتور مغربی قوتوں کا ’خوشامدی‘ ادارہ بنتا جارہا ہے۔

اگرچہ چین نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے احمقانہ رویوں کا شکار ہونے والے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی مدد کے لیے ویٹو کا اختیار بھی استعمال کیا ہے لیکن وہ اقوام متحدہ کو قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں کرپایا۔ اقوامِ متحدہ کی امن فوج کا خاص طور پر جنگ زدہ افریقہ میں ان کا کردار ایسا نہیں ہے کہ جس سے اس ادارے کے وقار میں اضافہ ہو۔

شاید چین فیصلہ کرچکا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین نے ثالثی کا کردار ادا کیا جس کے ذریعے چین نے بین الاقوامی ثالث بننے کے مقاصد کی جانب ابتدائی اور اہم قدم اٹھایا ہے۔

چین کی ثالثی کے نتیجے میں ایران - سعودی عرب تعلقات کی بحالی نے اپنی اہمیت میں ماضی میں ہونے والے دیگر معاہدوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان معاہدوں میں 1966ء میں روس کی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا تاشقند معاہدہ، 1972ء میں روس کی جانب سے شملہ معاہدے کی حوصلہ افزائی، امریکا کی جانب سے 1978ء میں کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل اور مصر کے درمیان معاہدے اور 1993ء میں اسرائیل اور فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن کے درمیان وائٹ ہاؤس میں طے ہونے والا اوسلو معاہدہ بھی شامل ہے۔

اگر چین کی حالیہ سفارتی حکمتِ عملی پر غور کیا جائے تو اس سے 2 طرح کی حقائق سامنے آتے ہیں۔

پہلی حقیقت یہ کہ اس طرح کی مفاہمت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی رضامندی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ اپنے بےحد امیر رشتہ داروں کے ساتھ ولی عہد کے ناروا سلوک کو بھلا دیا گیا ہے اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کو بھی فراموش کیا جاچکا ہے۔

سعودی عرب کی زیرِقیادت اتحادیوں اور حوثی باغیوں جنہیں یمن میں ایران کی حمایت حاصل ہے، ان دونوں کے درمیان تنازعے کی آگ اب بھی جل رہی ہے۔ جبکہ اسی دوران محمد بن سلمان سعودی ولی عہد کے عہدے پر بلا شرکت غیرے براجمان ہیں۔

پھر ایران کی جانب سے چین کی ثالثی قبول کرنے سے آیت اللہ خمینی کے امریکا سے متعلق ’بڑے شیطان، زخمی سانپ‘ کے نظریے کو تقویت ملی ہے۔ ایران نے یہ سیکھ لیا ہے کہ وہ رضا شاہ پہلوی کے ماضی کا مقروض نہیں ہے۔ 21ویں صدی میں اس نے مشرقی خطے میں امریکا کے حمایتی کے طور پر نہیں بلکہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی ہے۔

کیا پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست چین سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ پاکستان کو درپیش تنازعات، بالخصوص بھارت کے ساتھ اس کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرے گا؟ عقلی طور پر تو ایسا ہونا ممکن ہے۔ لیکن مودی کی زیر قیادت بھارت اور ایک بے سمت اتحادی حکومت کے زیرِانتظام پاکستان میں یہ تصور خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔

اس وقت پاکستان کی ترجیحات نہ مقبوضہ جموں و کشمیر یا سندھ طاس معاہدہ ہیں اور نہ ہی سیلاب متاثرین کی آبادکاری ہے۔ پاکستان ایک اندرونی جنگ میں ہی مصروف رہنا چاہتا ہے، ایک ایسی اندرونی جنگ جس میں بات چیت کی کوئی راہ بھی نہیں نکالی جارہی۔

ہمارے سیاست دانوں کے درمیان حالیہ تنازع ان تحائف پر ہے جو انہیں غیرملکی دوروں کے دوران دیے گئے۔ حال ہی میں توشہ خانہ کے انکشافات نے ہماری قیادت میں پائی جانے والی لالچ کو بےنقاب کیا ہے۔

جواہرات اور بلٹ پروف گاڑیوں کو ان سیاست دانوں نے اصل قیمت کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت پر خریدا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سیاست دانوں نے ان تحائف کی قیمت کی طرح اپنی ساکھ کو بھی بہت کم کردیا ہے۔


یہ مضمون 16 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں