شام پر حملہ: برطانوی حکومت کو ووٹنگ میں شکست

لندن: برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کے سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ پر شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔
شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر برطانیہ کے ہاؤس میں کامن میں شام پر حملہ کرنے یا کرنے کے سلسلے میں ووٹنگ ہوئی جس میں حکومت کو 13 ووٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس غیر متوقع نتیجے کے بعد کیمرون نے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ مجھ پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے عوام کے خیالات کی ترجمانی کی جو برطانوی فوج کو فوجی کارروائی کا حصہ بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ فیصلہ قبول کرتا ہوں اور حکومت اسی فیصلے پر عمل کرے گی۔
شام کے خلاف فوجی کارروائی کے سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ میں برطانوی حکومت کی شکست کے بعد یہ سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کیا امریکا بشار الاسد کی شامی حکومت کے خلاف اکیلا ہی فوجی کارروائی کرے گا جہاں امریکا نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے شام کے نواح میں کیے گئے کیمیائی حملے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
وزیر اعظم آفس کے ترجمان نے تصدیق کی کہ برطانیہ کسی بھی قسم کی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہو گا۔
ہاؤس آف کامن میں سات گھنٹے تک جاری رہنے والی بحث میں برطانوی ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر بٹے ہوئے دکھائی دیے، کچھ ارکان کا خیال تھا کہ فوجی حملے سے مشرق وسطیٰ کے اہم ملک میں مزید کیمیائی حملے نہیں کیے جائیں گے جبکہ کچھ کا موقف تھا کہ فوج کشی یا حملے کی صورت میں شام میں جاری تنازعہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
کیمرون اپنے خطاب کے دوران ٹارگیٹڈ حملوں کے حق میں دلیل دیتے ہوئے زور دیا کہ برطانیہ صدی کے دوران بدترین اور وحشیانہ انداز میں استعمال کی گئے کیمیائی ہتھیاروں پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتا۔
انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ حکومت بار بار ان ہتھیاروں کا استعمال کرے گی اور ہر بار اسے پہلے سے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا اور وہ سزا سے مستثنیٰ ہوں گے۔
لیکن انہیں حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی سمیت اپنی ہی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے کچھ ارکان کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے سوال کیا کہ کیا برطانیہ اسد کی جانب سے ان کے عوام پر ہتھیاروں کے استعمال کے ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود ان کے خلاف جنگ میں کودنا چاہتا ہے۔
کیمرون نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ابھی تک یہ بات 100 فیصد واضح نہیں ہو سکی کہ یہ حملہ کس نے کیا ہے لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مقامی حکومت ان حملوں کی ذمے دار ہے۔
برطانیہ کی جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے جمعرات کو شواہد جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 21 اگست کو کیمیائی ہتھیاروں کا بے شک استعمال کیا گیا اور اس میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
انٹیلی جنس نے مزید کہا تھا کہ اس بات کا بہت حد تک امکان ہے کہ ان حملوں کی ذمے دار حکومت ہے۔
تاہم حکومت ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کا ذمے دار باغیوں کو قرار دیتی رہی ہے۔
کیمرون کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کیلیے کال کی گئی اس ایمرجنسی بحث شام پر حملے کے خلاف 285 جبکہ حق میں 272 ووٹ پڑے۔
اس موقع پر وزیر اعظم کیلیے سب سے بڑا دھچکا ان کی اپنی ہی پارٹی کے 30 ارکان کی جانب سے حکومتی فیصلے کے خلاف ووٹ دینا تھا جبکہ اس کے علاوہ نو حکومتی اتحادی بھی حکومت کے خلاف ووٹ دینے والوں میں شامل تھے۔
سیکریٹری دفاع فلپ ہیمنڈ نے متنبہ کیا کہ اس عمل سے برطانیہ کے اپنے پرانے اتحادی امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ امریکا کو ہمارے رائج پارلیمانی طریقہ کار کو سمجھنا چاہیے، انہوں نے ہمیشہ اس بات کو سمھجا ہے کہ ہمیں کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل پارلیمنٹ کی اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ 2003 میں جب امریکا نے عراقی صدر صدام حسین کے خلاف ملک میں تباہ کن ہتھیار رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے فوج کشی کی تھی تو اس موقع پر بھی اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جنگ میں شرکت کے حوالے سے پارلیمنٹ سے منظوری لی تھی، اس موقع پر انہیں فوجی کارروائی کی اجازت دے دی گئی تھی۔
لیکن بعدازاں عراق سے کسی بھی قسم کے تباہ کن ہتھیار برآمد نہ ہو سکے اور برطانیہ ایک عرصے تک جنگ میں الجھا رہا۔
لیکن کیمرون کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ عراق کی طرح نہیں ہے، ہم جو شام میں دیکھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر بالکل مختلف معاملہ ہے۔
اس سلسلے میں عوامی رائے شماری سے اندازہ ہوتا ہے کہ برطانوی عوام شام میں فوجی کارروائی میں شرکت کے سخت مخالف ہیں۔