ہمارے ملکی دستور کے مطابق الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کا انتظام کرے اور اسے منعقد کروائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخابات ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ قانون کے مطابق منعقد ہوں اور یہ کہ بد عنوانیوں کا سدباب ہوسکے۔

الیکشن کمیشن نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات قانون اور آئین کے تحت بوجوہ کروانے سے قاصر ہے اور انہوں نے یہ انتخابات 8 اکتوبر 2023ء کو کروانے کا عندیہ دیا ہے۔

8 اکتوبر ہماری تاریخ میں مار شل لا کے آغاز کی تاریخ ہے، 12 اکتوبر بھی مارشل لا کے نفاذ کی تاریخ رہی ہے۔5 اکتوبر ملکی تاریخ میں بدترین زلزلے کا دن تھا۔ 16 اکتوبر لیاقت علی خان کی شہادت کا دن ہے، اور بھی کئی واقعات اکتوبر میں وقوع پذیر ہوئے۔

قومی اسمبلی کی مدت اگست میں پوری ہوگی اور پھر 90 دن میں انتخابات کا انعقاد ہوگا، یہ 60 دن میں بھی ہوسکتا ہے تاہم عبوری حکومت صرف 90 دن کے لیے اقتدار سنبھالتی ہے اور اس کو 90 دن میں اقتدار منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اگست سے اکتوبر تک ملک میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہوں گی مثلاً صدر مملکت عارف علوی کی مدت صدارت 9 ستمبر کو ختم ہو جائے گی۔ ہمارے دستور کی دفعہ 44 کے تحت دستور کے تابع صدر اس دن سے جس دن وہ اپنا عہدہ سنبھالے گا 5 سال کی مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا مگر شرط یہ ہے کہ صدر اپنی معیاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے گا۔

آئین پاکستان کی دفعہ 44
آئین پاکستان کی دفعہ 44

آئین کی دفعہ 41 (3) کے مطابق صدر ، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل انتخابی ادارہ کی طرف سے منتخب کیا جائے گا۔ ذیلی دفعہ 4 کے تحت صدر کے عہدے کے لیے انتخاب، عہدے پر فائز صدر کی معیاد ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 دن اور کم از کم 30 دن قبل کروایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ انتخاب مذکورہ بالا مدت کے اندر اس لیے نہ کروایا جاسکتا ہو کہ قومی اسمبلی توڑ دی گئی ہے تو یہ اسمبلی کے عام انتخابات کے 30 دن کے اندر کروایا جائے۔

ڈاکٹر عارف علوی کے عہدہ صدارت کی معیاد 9 ستمبر 2023ء کو ختم ہورہی ہے۔ ویسے تو آئین چیئرمین سینیٹ کو بھی قائم مقام صدر بنانے کا اختیار دیتا ہے مگر عارف علوی نئے صدر کے حلف تک بھی صدر رہ سکتے ہیں۔ یہ معاملہ بھی آئینی اور دلچسپ ہوگا۔ غالباً نگران وزیراعظم منصب جلیلہ پر فائز ہوں گے اور ان کی تعیناتی بظاہر وزیراعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض ہی کریں گے مگر کون جانے پی ٹی آئی کسی طور پر واپس قومی اسمبلی میں آکر اپوزیشن کا کر دار ادا کرے جس کی بظاہر قانونی جنگ کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں۔ عدالتوں نے مستعفی ارکان کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے انعقاد کو روک رکھا ہے مگر ابھی مذاکرات اور عدالتوں کے دروازے مکمل بند نہیں ہوئے۔

آئین کی دفعہ 41
آئین کی دفعہ 41

دوسری جانب حکمران جماعتیں اعلیٰ عدالتوں پر معترض ہیں۔ اس بارے میں زیادہ گفتگو کا امکان ہے اور پارلیمنٹ میں کی گئی تقریروں پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا اور قانون سازی پارلیمنٹ نے ہی کرنی ہوتی ہے چاہے عدالت عظمیٰ اس کو رد کردے۔

جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال بھی 16 ستمبر 2023ء کو ریٹائر ہورہے ہیں، اس سے سپریم کورٹ کی ہیت ترکیبی میں تبدیلی تو لازمی آئے گی، نئے بینچ بنیں گے، محترم قاضی فائز عیسیٰ صاحب چیف جسٹس بن جائیں گے حالانکہ عارف علوی صاحب تو ان کو عدلیہ کے نظام سے ہی نکالنا چاہتے تھے اور یہ شدید خواہش جناب عمران خان کی بھی تھی۔ انہوں نے صدر کو مشورہ دیا تھا اور صدر نے ریفرنس آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کوئی نئی حکمت عملی بھی حکمرانوں کی جانب سے سامنے آسکتی ہے۔

سپریم کورٹ میں آئندہ ایک دو روز میں تحریک انصاف نئی درخواستوں کے ساتھ انتخاب کروانے اور 30 اپریل کو کروانے کا مقدمہ زیر بحث لائے گی۔ ساتھ ہی وکلا کی ایک نئی تحریک کے آغاز کا اعلان بھی ہورہا ہے اس تحریک کو وہ سیاسی تحریک بنانے کی کوشش کریں گے مگر اس کے سیاسی مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آتے تاہم ایک ہنگامہ برپا کرنے کی سعی تو کی جائے گی۔

یہ بات تو طے ہے کہ صدر علوی صدر نہ رہیں گے مگر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی عدم موجودگی میں صدارتی انتخاب ہو سکے گا یا نہیں میں ذاتی طورپر اس بارے پوری طرح علم نہیں رکھتا مگر آئین میں صرف قومی اسمبلی کے ہونے یا نہ ہونے کا ذکر ہے۔ یہ معاملہ بھی عدالت کی رونق بڑھا سکتا ہے کیونکہ یہ انتخاب ویسے تو جولائی اگست میں ہو جانا چاہیے۔

آئین کی دفعہ 41 (5) واضح کرتی ہے کہ صدر کا خالی عہدہ پُر کرنے کے لیے انتخاب، عہدہ خالی ہونے کے 30 دن کے اندر کروایا جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ انتخاب مذکورہ مدت کے اندر اس لیے نہیں کروایا جاسکتا ہو کہ قومی اسمبلی توڑ دی گئی ہے تو یہ اسمبلی کے عام انتخاب کے 30 دن کے اندر کروایا جائے۔گوکہ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں مگر کسی بھی اسمبلی کے کل ارکان کے ووٹوں کی گنتی 65 سے زائد نہ ہوگی۔ بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ووٹ ایک ووٹ ہوگا جبکہ باقی جگہوں پر کئی کئی ارکان کے ووٹ ملا کر ایک ووٹ قرار دیا جائے گا۔

جیسا شروع میں واضح کیا کہ اکتوبر تلخ یادوں سے بھرا مہینہ ہے خدا کرے اکتوبر 2023ء جمہوری استحکام، اداروں کی تکریم اور ملک کی یکجہتی، ترقی اور خوشحالی کا پیغام لےکر آئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں