اگر آپ بھی بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے افراد میں سے ایک ہیں جنہیں قینچی سے لے کر گھر کا ہر چھوٹا کام کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے تو اچھی خبر یہ ہے کہ آپ دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے مقابلے زیادہ ذہین ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ہیلتھ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دائیں ہاتھ والوں کے مقابلے بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے والے بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ الٹے یا بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے زیادہ مشکل مسائل پر بہتر توجہ دے سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی ابرٹے یونیورسٹی کی جانب سے اس سلسلے میں ایک تجربے کے تحت 50 بائیں ہاتھ والوں کا 50 دائیں ہاتھ والوں سے مقابلہ بھی کروایا مگر یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ بائیں ہاتھ والے ناکام ہونے کے خوف سے بہتر یا تیز کام کر رہے تھے یا دائیں ہاتھ والے کامیابی کے شوق میں مبتلا تھے۔

تاہم یہ کوئی سائنسی دریافت یا دلائل کے ذریعے ثابت ہونے والی حقیقت نہیں کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے فیصلے زیادہ صحیح ہوتے ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا کہ بہتر فیصلہ وہ کرتے ہیں جو کچھ کرنے سے پہلے سوچنا بھی ضروری سمجھتے ہیں چنانچہ بہتر سوچنے کا تعلق دائیں یا بائیں ہاتھ سے نہیں ہوتا، سوچنے کا تعلق دماغ، علم اور تجربے سے ہوتا ہے۔

براک اوباما بائیں ہاتھ سے گوانتانامو بے بند کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر رہے ہیں (اے ایف پی)
براک اوباما بائیں ہاتھ سے گوانتانامو بے بند کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر رہے ہیں (اے ایف پی)

محققین کے مطابق دنیا میں 10 میں سے ایک شخص بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے اور زیادہ تر جتنی نامور شخصیات گزری ہیں وہ سب الٹے ہاتھ کے لکھاری تھے جن میں سابق امریکی صدر براک اوباما سمیت 8 امریکی صدور بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔

اس کے علاوہ البرٹ آئن سٹائن، مارک ٹوئن ،میری کیوری، نیکولا ٹیسلا اور ارسطو شامل ہیں۔

اس کے علاوہ برطانیہ کے شہزادہ ولیم، ارب پتی مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس بل گیٹس اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ بھی بائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دماغ کے دو حصہ ہوتے ہیں اور نرو سیل (nerve cells) دماغ کے دونوں حصوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، لیکن جھکاؤ زیادہ بائیں ہاتھ کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ صلاحیت رکھنے والے افراد اپنے ذہن میں معلومات کی ذخیرہ اندوزی پر بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔

برطانیہ کے شہزادہ ولیم
برطانیہ کے شہزادہ ولیم

بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے دماغ میں کیا تبدیلی آتی ہے؟

بی بی سی کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں انسانی ڈی این اے کے 4 ایسے حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس بات کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں کہ آیا کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا ہے یا دائیں ہاتھ سے۔

ایسے لوگ جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے ان میں 4 جینز میں ’میوٹیشن‘ پائی گئی جو جسم کے سائٹوسکلٹن کے لیے کوڈ ترتیب دیتی ہیں یہ پیچیدہ نظام خلیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو ان کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

جن افراد میں یہ میوٹیشن پائی گئی ان کے سکین سے معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میں سفید مادے کی ساخت مختلف تھی۔

بائیں ہاتھ والے لوگوں کے دماغ کے بائیں اور دائیں حصے بھی دائیں ہاتھ والے لوگوں کی نسبت بہتر جڑے ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں