سپریم کورٹ کےسوموٹو نوٹسز کا کوئی فائدہ نہیں، پاکستان کو نقصان ہی ہوا، خرم دستگیر

05 اپريل 2023
خرم دستگیر نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے—فوٹو:نیشنل اسمبلی ٹوئٹر
خرم دستگیر نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے—فوٹو:نیشنل اسمبلی ٹوئٹر

وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کےسوموٹو نوٹسز کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں، اس کا پاکستان کو نقصان ہی ہوا، انتخابات تاخیر کیس میں ہمارا مطالبہ فل کورٹ کا تھا، اس میں کیا امر مانع ہے کہ معاملہ میں شفافیت آئے۔

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی خبر کے مطابق اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ اس ملک میں عدلیہ آزاد ہے لیکن عدل ابھی قید ہے، نیب اور اینٹی کرپشن کے محکموں کو گذشتہ دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا، انتخابات کے لیے مردم شماری ضروری ہے، ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پارلیمان نے آج سے 50 سال پہلے 10 اپریل 1973ء کو اس ملک و قوم کو متفقہ آئین دیا جس کے ابتدائیہ میں لکھا گیا کہ ریاست اپنے اختیارات منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی، ریاست کا اقتدار اعلیٰ عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان پر پہلا ڈاکہ ڈالا گیا جو 24 سال جاری رہا، عوام کے حق حاکمیت میں رکاوٹ ڈالی گئی تو اس کے نتیجہ میں ملک ٹوٹا، ہم نظریہ ضرورت، فوجی آمریت سے برسر پیکار رہے جن کا آپس میں گٹھ جوڑ رہا، جن کا مقصد عوام کا حق حاکمیت چھیننا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں ایک ایمپیریل سپریم کورٹ کا سامنا ہے، 2009 تک آمریت کا ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ رہا، یہ گٹھ جوڑ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے شروع ہو کر جنرل مشرف کو تین سال دینے تک جاری رہا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا، پھر عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو ایسی بنیاد پر نااہل کیا جس میں کسی سطح پر یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا، ان کے خلاف پانامہ کیس میں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر انہیں تاحیات نااہل قرار دیا گیا، آئین کے آرٹیکل 10 میں شفاف ٹرائل کا حق شامل ہے لیکن یہ نہیں دیا گیا جبکہ اس سماعت کے دوران آرٹیکل 66 کو بھی روندا گیا کہ کوئی رکن اس ایوان میں کوئی بات کرتا ہے تو اس پر کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

خرم دستگیر نے کہا کہ اس کے بعد انہیں پارٹی صدارت سے ہٹانے کیلئے رائٹ ٹو ایسوسی ایشن کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا، 2018ء کے سینٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے انتخابی نشان کا حق چھین لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ توہین عدالت میں سینٹ سے نہال ہاشمی کو نااہل قرار دیا گیا، طلال چوہدری، دانیال عزیز کو سزا ئیں دی گئی، پنجاب کے ارکان اسمبلی کو عدالتوں میں بے عزت کیا گیا، ملک بھر میں غریبوں کی جھونپڑیاں گرائی گئیں اور بنی گالہ کو ریگولرائز کیا گیا، کراچی میں ایک بڑی نجی ہائوسنگ سوسائٹی اور شاہراہ دستور پر کھڑی دو بڑی عمارتوں کو ریگولر ہوتے دیکھا، نیب اور اینٹی کرپشن کے ہاتھوں اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے سوموٹو نوٹسز کا اس ملک کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کا پاکستان کو نقصان ہی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ فل کورٹ کا تھا، اس میں کیا امر مانع ہے کہ اس معاملہ میں شفافیت آئے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئین 90 دن میں انتخابات کرانے کی بات کرتا ہے تو تمام اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک کی بات بھی کرتا ہے، اگر پنجاب میں الیکشن حق ہے تو کیا کے پی کے میں نہیں، یہ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری پر ہوں، دو صوبوں میں اگر گذشتہ مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن ہوں تو اور دو صوبوں میں اور وفاق میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات ہوں تو کیا اس سے ایک نیا تنازع نہیں کھڑا ہو گا؟

انہوں نے کہا کہ 2017ء کے الیکشن ایکٹ میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن کرانے کی بات کی گئی ہے جبکہ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی حلقہ میں قدرتی آفت یا کسی دیگر وجہ سے اس دن پولنگ نہیں ہو سکتی تو اس کیلئے کوئی اور دن بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین الیکشن صاف شفاف کرانے کا بھی کہتا ہے، ہمیں بار بار آرٹیکل 190 پڑھایا جاتا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک آئینی حیثیت ہے اس کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ نے اس دن انتخابات کرانے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نظریہ ضرورت کی نہیں بلکہ نظریہ جمہوریت کی ضرورت ہے، عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے، پاکستان کی طاقت پاکستان کے عوام ہیں، آئین سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کا خالق ہے، اس پارلیمان نے اپنے قانون سازی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے ایک قانون پاس کیا اس کا احترام ہونا چاہئے۔

وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ یہ ایوان سب سے زیادہ خود مختار ہے، یہاں آنے والا ہر نمائندہ لاکھوں ووٹروں کا منتخب کردہ ہے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں میں یہ شفافیت نظر نہیں آئی، اس قوم نے عوام کے حق حاکمیت کیلئے قربانیاں دی ہیں، سیاستدانوں نے جانیں دیں، جیلیں کاٹیں، ہم تصادم نہیں چاہتے، آج جو تنائو اور خرابی ہے اس کی بنیاد 2017ء سے شروع ہوتی ہے جس میں عوام کی حاکمیت میں غیر قانونی مداخلت کی گئی۔

خرم دستگیر نے کہا کہ اس طرح کی کسی اور مداخلت کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ،اس کا ازالہ فل کورٹ اور 2023 کا انتخاب ہر لحاظ سے غیر آئینی مداخلت سے پاک اور صاف شفاف بنیادوں پر ایک ساتھ ساری اکائیوں میں ہو، اسی طرح ہم 50 سال گزرنے کے بعد اپنے اسلاف سے کہہ سکیں گے کہ ہم نے اس آئین کا دفاع کیا ہے۔

’سپریم کورٹ فل کورٹ بنا کر پنجاب، کے پی میں انتخابات کا فیصلہ کرے‘

اجلاس کے دوران قومی اسمبلی میں دیگر اراکین نے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ فل کورٹ بنا کر پنجاب اور کے پی میں انتخابات کا فیصلہ کرے، ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے، ملک میں موجودہ سیاسی و معاشی بحران گذشتہ حکومت کا پیدا کردہ ہے، ہم انتخابات سے بھاگنے والے نہیں تاہم چاروں صوبوں اور وفاق میں ایک ہی وقت انتخابات کرائے جائیں، الگ الگ انتخابات کرانے سے ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہو گا اور شفاف انتخابات پر انگلیاں اٹھیں گی۔

ادارے اپنے فیصلوں، رویوں سے عزت کراتے ہیں، اسلم بھوتانی

اظہار خیال کرتے ہوئے ریاض محمود مزاری نے کہا کہ اس پارلیمان میں اس پارلیمان میں بدتہذیبی کا آغاز 1988 ء سے ہوا اور شیخ رشید نے یہ روایت شروع کی، اس کی وجہ سے یہ گند آج تک اچھالا جا رہا ہے، عدلیہ کا فیصلہ شاید ان کی سوچ کے مطابق درست ہو لیکن ان کو گالیاں دینا درست اقدام نہیں، تحریک انصاف سے ہمارے اختلاف کی بنیادی وجہ یہی گالم گلوچ تھی، پی ٹی آئی کے ایک بزرگ رکن پارلیمان سے ایوان میں آنے کے چھ ماہ بعد اس جانب توجہ دلائی کہ یہاں اس طرح کی زبان سے گریز کریں۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب اس بات کو پسند کرتے ہیں، اس ایوان کی عزت ہم نے کرنی ہے، ہم ایک دوسرے کی عزت نہیں کررہے تو اسی لئے عوام ہماری عزت نہیں کرتے۔

اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ایوان میں نعرے بازی اور پوسٹر لے کرآنے کی رولز اجازت نہیں دیتے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

اسلم بھوتانی نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں اس وقت جو ہو رہا ہے اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا، ادارے اپنے فیصلوں اور رویوں سے اپنی عزت کراتے ہیںِ، آئین میں یہ نہیں لکھا کہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کسی کے کہنے پر اسمبلیاں تحلیل کریں، سپریم کورٹ کو یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے تھا۔

عمران نیازی اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد حواس باختہ ہو چکا، رہنما جے یو آئی (ف)

ان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے ازخود نوٹس کے حوالہ سے فیصلے کے خلاف انتخابات کے انعقاد کے کیس کے فیصلہ کے بعد 6 رکنی بنچ بنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کا فیصلہ مستند تھا، اگر یہ فیصلہ غیر مستند ہوتا تو پھر یہ بنچ بنانے کی ضرورت کیا تھی۔

مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ اداروں میں خلفشار ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ایک آئینی بحران پیدا کیا گیا جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا، اس کے پیچھے کیا منصوبہ اور سازش ہے، اس منصوبہ کو بے نقاب کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کی معیشت اور مسائل کو دیکھتے ہوئے آپس میں مل بیٹھ کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کا فیصلہ کریں، یہ قومی مفاد میں ہے، چیف جسٹس ایک بڑے ادارے کے سربراہ ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ اس ادارہ کو کسی فرد واحد کے لیے تباہ ہونے سے بچائیں۔

پیپلز پارٹی کی رکن ناز بلوچ نے کہا کہ 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور یہ قتل انصاف دینے والوں کے ہاتھوں ہوا لیکن ذوالفقار علی بھٹو آج بھی زندہ ہیں، اس وقت ملک کو جن معاشی مشکلات اور بحرانوں کا سامنا ہے اس کا ذمہ دار عمران خان ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف ریفرنس سنا جائے۔

اس دوران ناز بلوچ نے اسرائیلی فورسز کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں نماز یوں پر بیہمانہ تشدد کی شدید مذمت کی۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے رکن سید محمود شاہ نے کہا کہ عمران نیازی اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد حواس باختہ ہو چکا ہے، اس کے اقدامات کی وجہ سے ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کی صورتحال ہے۔

عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ اس ملک میں عدالتیں لاڈلے کا انتظار کرکے اس کو انصاف دیتی ہیں جو اس ملک کے ساتھ زیادتی ہے، ہمیں انصاف کو عام لوگوں کے لیے آسان بنانا ہو گا۔

مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات غیر آئینی ہو جائیں گے، رکن پی ٹی آئی

مسلم لیگ (ن) کے رکن قیصر احمد شیخ نے کہا کہ ہم انتخابات سے بھاگنے والے نہیں ہیں تاہم اس سے قبل بحرانوں سے نمٹنا چاہئے۔

تحریک انصاف کے رکن احمد حسین ڈیہر نے کہا کہ اس ایوان کے جن اراکین کی وجہ سے گذشتہ حکمرانوں سے قوم کو نجات ملی وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، انتخابات کے انعقاد کےلیے تمام انتظامات مکمل کئے جانے ضروری ہیں اس کے بغیر شفاف انتخابات ممکن نہیں، صوبوں اور وفاق میں الگ الگ انتخابات سے انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہو سکیں گے، مردم شماری کے بعد پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات غیر آئینی ہو جائیں گے۔

سجاد اعوان نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو اس ایوان نے مسترد کر دیا ہے،کب تک ہم عدالتی فیصلے کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے اجلاس کل دن گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں