عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 6 میں سے ایک شخص بانجھ پن کا شکار ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار 1990 سے 2021 تک ہونے والی طبی تحقیقی رپورٹس پر مبنی ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں 17.5 فیصد بالغ آبادی کو بانجھ پن کا سامنا ہے۔

امیر، متوسط اور غریب ممالک میں بانجھ پن کی شرح کے موازنے سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ دنیا کے ہر خطے کے لیے ایک سنگین طبی چیلنج ہے۔

امیر ممالک میں یہ شرح 17.8 فیصد جبکہ متوسط اور غریب ممالک میں 16.5 فیصد ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے بانجھ پن کی تعریف 12 ماہ یا اس سے زیادہ باقاعدگی سے غیر محفوظ جنسی تعلقات کے بعد حمل حاصل کرنے میں ناکامی کے طور پر کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بانجھ پن کی تعریف شادی شدہ جوڑے کے درمیان جنسی تعلقات کے ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ کے دوران حاملہ نہ ہونے کے طور پر کی جاتی ہے، یعنی شادی کے ایک سال کے اندر یا ایک سال سے زائد دورانیے میں حمل نہ ہونا بانجھ پن کی علامت جانی جاتی ہے۔

’بیشتر ممالک میں طبی سہولیات ناکافی‘

اقوام متحدہ کے ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس کا کہنا ہے کہ بانجھ پن کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جو اکثر پیچیدہ ہیں، جن میں مردوں اور خواتین دونوں کو اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر ممالک میں اس حوالے سے طبی سہولیات ناکافی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے فرٹیلیٹی کیئر یونٹ کے سربراہ جیمز کیاری نے بتایا کہ 1990 اور 2021 کے درمیان بانجھ پن کی شرح میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اعدادوشمار کے مطابق ہم یہ نہیں کہہ سکتے ک بانچھ پن کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، اس پر ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا’۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بانجھ پن سے شکار افراد کی ذہنی اور جسمانی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،اس کے علاوہ طبی اور نفسیاتی صحت پر بھی اثر ہوتا ہے جو کہ ان کی زندگی کی کیفیت کو بہتر کرنے سے روکتا ہے۔

علاوہ ازیں، غریب ممالک میں بانجھ پن کے علاج کے لئے لوگوں کو بہت زیادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے جو کہ ان کی مالی حالت کو مزید متاثر کرتی ہے، جس کے باعث وہ علاج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں