لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان ٹکراؤ نے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کو مزید خطرناک اور غیرمتوقع مرحلے میں دھکیل دیا ہے۔ جیساکہ سب کو توقع تھی، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اکتوبر تک پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے التوا کے فیصلے کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دیا ہے۔

یہ بھی حکم دیا گیا کہ وفاقی حکومت صوبائی انتخابات کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے اور الیکشن کمیشن کو فنڈز مہیا کرے۔ اس کے باوجود انہوں نے اس کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا اس نے تنقید اور تنازع کو ہوا دی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئین کی ساکھ کو برقرار رکھا۔ مجوعی طور پر قانونی ماہرین نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا تاہم اس عمل میں سامنے آنے والی اندرونی تقسیم پر مایوسی کا اظہار بھی کیا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے انتخابات کا نیا شیڈول جاری کردیا ہے۔ لیکن حکمراں اتحاد نے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرنے سے انکار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اس کے خلاف بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا۔ وزیر قانون نے خبردار کیا ہے کہ اس سے ملک میں موجود سیاسی اور آئینی بحران مزید سنگین ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور ان کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

حکمران جماعتوں کے سربراہان نے واضح کردیا ہے کہ وہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر مزاحمت کریں گے۔ بعدازاں قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور وزیراعظم پر زور دیا گیا کہ وہ عدالتی فیصل کی تعمیل نہ کریں۔ اس قرارداد میں یہ بھی زور دیا گیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہونے چاہئیں۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں اپوزیشن کی جانب سے جنوری میں ہی تحلیل کردی گئی تھیں اور پی ڈی ایم حکومت نے ہر ممکن کوشش کی کہ انتخابات کی تاریخ دینے سے جس حد تک ہوسکے بچا جائے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ دی جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ فیصلے سے قبل ہی شہباز شریف اور ان کے وزرا نے چیف جسٹس پر دباؤ ڈالنے کے لیے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کے لیے فل کورٹ بینج کی تشکیل پر اصرار کیا۔

حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل نہ کرنے کے اعلان نے دونوں اداروں کو تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اس سے ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور اداروں کے درمیان خلیج بڑھے گی جیسے انتظامیہ اور صدارتی ادارے کے درمیان، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان اور اب انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان معاملات جمود کا شکار ہیں۔

یہ سب عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت کے درمیان اقتدار کے حصول کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ ان دونوں کے تصادم کی وجہ سے اداروں نے سیاسی محاذ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ سیاسی تنازعات قانونی جھگڑوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ جیسے معاملات، جنہیں مذاکرات اور باہمی رضامندی سے سیاسی قیادت کو آپس میں حل کرنا چاہیے تھا، اب وہ عدالت میں جاپہنچے ہیں جس سے عدلیہ دباؤ کی زد میں آرہی ہے۔ اب جب عدالت کوئی فیصلہ سناتی ہے تو دونوں میں سے کوئی فریق اس پر جانبداری اور تعصب کا الزام عائد کردیتا ہے۔

پاکستان کی جمہوریت کے لیے اس سب کا آخر کیا مطلب ہے؟ تنازعات کو سیاسی طریقوں سے حل نہیں کیا جارہا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی تعطل نے جمہوریت کو غیرفعال کردیا ہے۔ جمہوریت کو فعال رہنے کے لیے سمجھوتے اور اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب سیاسی تقسیم اس کام کو مشکل بنادے تو اس سے جمہوریت کو نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ نقصان دہ سیاست اور انتہائی عدم برداشت نے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جو جمہوریت کے منافی ہے اور یہ جمہوری کلچر کو ختم کررہا ہے۔

پی ٹی آئی کے قانون سازوں کی جانب سے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے غیردانش مندانہ فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجے میں یہ غیرفعال ہوچکی ہے۔ مزید یہ کہ حکمران اتحاد اس ایوان کو عوامی مفادات کی قانون سازی کے لیے بہت کم استعمال کررہا ہے۔ اس کے بجائے یہ ایوان حکومت کے لیے سیاسی جنگ میں اہم ہتھیار بنا ہوا ہے اور اب یہ عدلیہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد اور اسمبلی میں کی جانے والی جارحانہ تقاریر اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ اس سب نے جمہوریت میں پارلیمنٹ کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔

جمہوریت کی اصل روح مضبوط اداروں میں ہے جن کی آزادی اور فیصلوں کا تمام سیاسی کردار احترام کریں۔ لیکن آج ریاستی اداروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی تصادم اور ان کے فیصلوں پر اعتراضات کرنے سے ادارے (سپریم کورٹ) میں اندرونی تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان اختلافات ان کے فیصلوں اور عدالت کی ساکھ کو متاثر کرسکتے ہیں۔

جہاں تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے اپنے دائرہ اختیار سے آگے بڑھ کر کام کیا اور آئین کی خلاف ورزی کی جس سے اس کا کردار عوامی سطح پر متنازع ہوگیا۔ یہ ادارے جمہوریت کے ڈھانچے کے طور پر کام کرتے اور کسی نہ کسی وجہ سے ان میں ہم آہنگی کے فقدان کے باعث جمہوریت کمزور ہوگی۔ پولرائزیشن اور سیاسی انتشار ملکی اداروں پر اثرانداز ہورہا ہے اور انہیں ٹوٹ پھوٹ کے خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔

حکومت کا اب اپنے جارحانہ حملوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات اور قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے، اس کے فیصلوں پر عمل در آمد سے انکار کرنے اور اپنے حامیوں کو قانونی برادری کے درمیان متحرک کرنے سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوگی جوکہ جمہوریت کی بنیاد ہے۔ قانون اور آئین کی خلاف ورزی ملک کو بدامنی اور افراتفری کے راستے پر دھکیل دے گی اور آخرکار پی ڈی ایم پارٹیوں کو اس کی سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

یہ طرزِعمل، مسلسل جاری سیاسی کشمکش اور ریاستی ستونوں کے درمیان محاذ آرائی پاکستان کی کمزور ہوتی جمہوریت کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ پاکستان میں بگڑتے معاشی حالات میں مہنگائی سے نبردآزما لوگوں کو اس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ سیاسی قیادت کو عوامی مفادات سے زیادہ اقتدار کی فکر ہے۔ اس وقت ملکی منظرنامے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اشرافیہ کے درمیان ایک زبردست مقابلہ بازی ہے جس کا عوامی ضروریات اور عوامی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل سے انکار کے غیرمتوقع نتائج کے ساتھ ایک بڑا بحران ہماری راہ تک رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حالات کے حوالے سے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی آئرس کمیونیکیشنز نامی مشاورتی فرم کے تحت ہونے والے سروے میں بھی عکاسی ہوئی۔ اس سروے سے ظاہر ہوا کہ 70 فیصد سے زیادہ پاکستانیوں کو لگتا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے۔

دوسری جانب عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا تو ان کے حمایتی سڑکوں پر آجائیں گے۔ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچے گا، بےامنی اور عدم استحکام کو ہوا ملے گی۔ اس سے یہ بھی خطرہ ہے کہ جمہوریت کی حیثیت بس نام کو ہی رہ جائے گی۔


یہ مضمون 10 اپریل 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں