نوجوان کوہ پیمان ساجد علی سدپارہ بغیر اضافی آکسیجن کے نیپال کی 8 ہزار 91 میٹر اونچی اناپرنا چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔

نوجوان کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے گزشتہ روز کیمپ 4 سے چوٹی سر کرنے کا سفر شروع کیا جو کہ الپائن اسٹائل سے چوٹی سر کر رہے تھے۔

سیون سمٹ ٹریکز کے مطابق لیجنڈ کوہ پیما مرحوم محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے بغیر کسی معاونت اور اضافی آکسیجن کے آج دوپہر کے بعد کامیابی سے اناپرنا چوٹی سر کرلی۔

خیال رہے کہ اناپرنا چوٹی دنیا کی دسویں بڑی پہاڑ ہے جو کہ نیپال میں ہے۔

کوہ پیما نے چوٹی سے اترنا شروع کر دیا ہے اور رات قیام کے لیے نچلے کیمپوں تک پہنچنے کی توقع ہے۔

خیال رہے کہ کوہ پیما ساجد علی سدپارہ بغیر کسی اضافی آکسیجن کے پہاڑی اسٹائل میں دنیا کی تین بڑی چوٹیاں سر کرنے کے عزم سے 13 مارچ کو نیپال پہنچے تھے۔

نیپال جانے سے قبل ڈان کو دیے گے انٹریو میں ساجد علی سدپارہ نے کہا کہ ان کا مشن تین ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل نوجوان کوہ پیما نیپال اور پاکستان میں اور چوٹیاں بھی سر کر چکے ہیں۔

الپائن اسٹائل ایک ’خود کفیل‘ سمٹ ہے جس میں کوہ پیماؤں کو بیس کیمپ سے چوٹی تک اونچائی والے دیکھ بھال کرنے والے کی مدد نہیں ہوتی اور وہ ہر چیز بشمول کھانا لے جانے، خیمے، رسیوں سے لے کر اور راستے خود طے کرنے تک کا انتظام خود کرتے ہیں۔

ساجد سدپارہ کا مقصد پوری دنیا کے 14 آٹھ ہزار کو بغیر کسی اضافی آکسیجن کے سر کرنا ہے۔

کوہ پیما نے کم عمری میں انتہائی خطرناک چوٹیوں کو سر کر کے الپائن کمیونٹی میں اپنا نام روشن کیا ہے جبکہ وہ کے ٹو پر دو بار چڑھے جس میں ایک بار وہ بغیر اضافی آکسیجن کے بھی گئے تھے، تاہم 2022 میں انہوں نے اضافی آکسیجن کے بغیر مناسلو چوٹی سر کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔

قبل ازیں انہوں نے بغیر اضافی آکسیجن کے تین دن اور 18 گھنٹے میں گیشر برم ون اور گیشر برم ٹو سر کرنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔

واضح رہے کہ فروری 2021 میں ساجد علی سدپارہ کے والد کوہ پیما محمد علی سدپارہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ کے ٹو چوٹی سر کرنے کی کوشش میں لاپتہ ہوگئے تھے۔

بعدازاں تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں 5 ماہ بعد مئی میں برآمد ہوئی تھیں۔

ساجد سدپارہ نے اپنے والد اور دیگر کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے مشکل اور غیر معمولی مشن قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو کے ٹو چوٹی کو سر کرنا خود ایک خطرناک مہم جوئی تھی اور پھر آٹھ ہزار میٹر سے اوپر میرے والد کی تدفین دل دہلا دینے والی تھی۔

ساجد سدپارہ نے کہا کہ لاشوں کو بیس کیمپ تک واپس لانا مشکل تھا اس لیے ہم نے انہیں پہاڑ پر دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔

ساجد سدپارہ نے کہا کہ اب ان کا مشن بغیر اضافی آکسیجن کے آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر تمام 14 چوٹیوں کو سر کرنا ان کے والد کے خواب کی تکمیل ہوگا۔

انہوں نے اپنے والے کی تربیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ کو ایسا ماحول ملے جہاں آپ صرف کوہ پیما بننے کی پریکٹس اور باتیں سنیں تو یقیناً آپ وہی بن جاتے ہیں۔‘

الپائن کلب آف پاکستان کی جانب سے کرار حیدری نے جاری کردہ بیان میں ساجد علی سدپارہ کو اناپورنا چوٹی پر کامیابی سے پہنچنے پر مبارکباد پیش کی۔

تبصرے (0) بند ہیں