شاہ محمود قریشی کا ’تمام اسٹیک ہولڈرز‘ پر انتہاپسندوں کی واپسی کا الزام

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2023
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج جو تنقید کر رہے ہیں وہ پی ٹی آئی دور میں اجلاس میں شریک تھے—فائل/فوٹو: ڈان
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج جو تنقید کر رہے ہیں وہ پی ٹی آئی دور میں اجلاس میں شریک تھے—فائل/فوٹو: ڈان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عسکری قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ کے ان کیمرا اجلاس میں سابق حکومت پر انتہاپسندی میں اضافے کا الزام عائد کرنے کے دو دن بعد ردعمل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قبائلی اضلاع میں دوبارہ آباد کاری کا الزام تمام سیاسی جماعتوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں اس تاثر کو رد کردیا کہ انتہاپسندوں کو پی ٹی آئی کی حکومت اور اس وقت کی فوجی قیادت کی وجہ سے دوبارہ لایا گیا۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جب طالبان افغانستان سے پاکستان آنے کے لیے بے تاب تھے تو انہیں مرکزی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کے لیے چند شرائط رکھی گئی تھیں کہ وہ آئین کی تابعداری کریں گے، اسلحہ پھینک دیں گے اور اپنے مخصوص علاقوں میں پرامن رہیں گے‘۔

حکمران اتحاد اور موجودہ فوجی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آج جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں انہوں نے بھی پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والی بریفنگز میں شرکت کی تھی‘۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین نےکہا کہ بریفنگ کے بعد اس حوالے سے حکمت عملی بنانے کے لیے اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاہم پی ٹی آئی کی حکومت برطرف کردی گئی اور پی ٹی آئی کے بعد آنے والی اتحادی حکومت موجودہ بحران کی ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں دہشت گردی میں واضح کمی آئی تھی لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے۔

اجلاس سے باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ عسکری قیادت نے چند روز قبل اراکین پارلیمنٹ کو بریفنگ میں انتہاپسندی میں اضافے کا الزام پی ٹی آئی کی حکومت اور اس وقت کی فوجی قیادت پر عائد کیا تھا۔

اجلاس کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے قرآن کی متعدد آیات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انتہاپسندوں کو قبائلی اضلاع میں واپس لانا ایک غلطی تھی۔

ان کا مؤقف تھا کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں انتہاپسندوں کے خلاف ایک وسیع آپریشن شروع کیا گیا تھا لیکن بعد میں انتہاپسندوں کو واپسی کی اجازت دے دی گئی، جس کے نتیجے میں ملک انتہاپسندی میں اضافے کا سامنا کر رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ آرمی چیف نے کہا کہ آئین بالادست ہے اور ہر کسی کی بقا اس پر مکمل عمل درآمد پر ہے اور انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف نے بتایا کہ آئین کی گولڈن جوبلی جشن کے بعد، جو گزشتہ ہفتے منعقد ہوئی تھی، وہ فوج کی مختلف فارمیشنز میں گئے اور جوانوں پر زور دیا کہ وہ آئین کا احترام کریں۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت اور موجودہ اجلاس میں شریک مزید ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ قبائلی اضلاع میں انتہاپسندوں کی دوبارہ واپسی کے منصوبے پر سوائے پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے کسی نے تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ پی پی پی چیئرمین نے سوال کیا تھا کہ طالبان کی دوبارہ آباد کاری کیسے ہوسکتی ہے اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اپنے مخصوص علاقوں میں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم سب اس اجلاس میں اور موجودہ اجلاس میں بھی جو بریفنگ دی گئی، اس پر صرف تالیاں بجاسکتے تھے‘۔

اجلاس کے چند شرکا نے تجویز دی کہ ان کیمرا اجلاس کے منٹس پی ٹی آئی کے بیانیے کو نقصان پہنچانے کے لیے عام کردیے جائیں۔

رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا اسپیکر پہلی مرتبہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے ساتھ نیچے بیٹھنے کے بجائے اپنی ڈائس پر بیٹھے رہے، اس اقدام کی تعریف قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کی اور انہوں نے ’پارلیمان کی توقیر برقرار رکھنے‘ پر اسپیکر کی تعریف کی۔

تبصرے (0) بند ہیں