ہم اس وقت ایک ایسی مشکل سے دوچار ہیں جس کی شدت کا ہمیں اندازہ نہیں ہے۔ یہ ایک شکنجہ ہے، جو کستا جارہا ہے۔ انفارمیشن کے ریلے میں ہم ’مس انفارمیشن‘ کے بہاؤ میں پھنس گئے ہیں۔

اسے اس مثال سے سمجھیے کہ ایک نیم گرم سہ پہر کراچی کے کسی ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے ہوئے آپ کو واٹس ایپ پر ڈونلڈ ٹرمپ کی تصویر وصول ہوتی ہے۔ سابق امریکی صدر کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور تصویر کا کیپشن ٹرمپ کی گرفتاری کا اعلان کررہا ہے۔

یہ ایک بڑی خبر ہے۔ آپ اسے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کرنے کو ہیں کہ یک دم ذہن میں خیال کوندتا ہے کہ پہلے اس کی تصدیق کرلی جائے۔ دیگر موبائل صارفین کی طرح آپ بھی خبروں کے لیے نیوز ویب سائٹس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر انحصار کرتے ہیں۔

خبر امریکا سے متعلق ہے تو آپ کا ذہن ’دی نیویارک ٹائمز‘ کی سمت جاتا ہے، جس کا شمار دنیا کے بڑے اور معتبر اخبارات میں ہوتا ہے اور جس کے ڈیجیٹل سبسکرائبرز کی تعداد 86 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ شاید آپ دی نیویارک ٹائمز کے فیس بک بیچ کے بجائے ٹوئٹر ہینڈل پر جانا پسند کریں۔ نیوز ویب سائٹس بھی تازہ ترین خبروں کی پوسٹنگ کے لیے ٹوئٹر ہی کو ترجیح دیتی ہیں مگر جب آپ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاتے ہیں تو ایک بڑی الجھن آپ کی منتظر ہوتی ہے۔

حضرات، آپ کے سامنے ایک ایسا اکاؤنٹ ہے جس کے 55 ملین فالورز ہیں، جو سال 2007ء سے متحرک ہے مگر پریشان کُن بات یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ پر ویریفائیڈ بلیو ٹک موجود نہیں ہے۔

ٹوئٹر کے صارفین بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ تصدیقی بلیو ٹک یا لیگیسی چیک کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ صارف کی رہنمائی کرتا ہے کہ ’دی نیویارک ٹائمز‘ سے ملتے جلتے درجنوں ٹوئٹر اکاؤنٹس میں سے کون سا ہینڈل قابلِ اعتبار اور تصدیق شدہ ہے۔ یہی بلیو ٹک نشان دہی کرتا ہے کہ کون کون سے سیاست دان، فنکار، حکومتی ادارے اور اہلکار ٹوئٹر پر موجود ہیں اور ان کا سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات پر کیا موقف ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ویریفائیڈ بلیو ٹک ’فیک نیوز‘ اور ’مس انفارمیشن‘ کا سدباب کرتا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا ہاؤسز کے ویریفائیڈ اکاؤنٹس کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ البتہ دنیا کے امیر ترین انسان ایلون مسک کی منظر میں آمد کے بعد سب تلپٹ ہوگیا ہے۔

اس کا آغاز اکتوبر 2022ء ہی میں ہوگیا تھا جب 44 بلین ڈالرز کے عوض ٹوئٹر کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ایلون مسک نے سی ای او پیراگ اگروال سمیت اعلیٰ عہدیداروں کو برطرف کردیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی آمد سے قبل ہی ڈرامائی تبدیلوں کا اعلان کرچکے تھے۔ اپريل 2022ء میں جب ٹوئٹر بورڈ نے ان کی بولی کی منظوری دی تھی تب ایلون مسک نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ نئے فیچرز متعارف کروا کر، جعلی بوٹس کو شکست دے کر اور صارفین کی تصدیق کے عمل کو موثر بناتے ہوئے ٹوئٹر کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کی بندش کے فیصلے کے ناقد تھے اور ٹوئٹر کی سینسرشپ اور اعتدال پسندی کو پہلی ہی آڑے ہاتھوں لے چکے تھے۔ البتہ ان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد جس اقدام نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی وہ بلیو ٹک یا تصدیقی بیجز کی فیس وصول کرنے کا اعلان تھا جس نے دنیا بھر میں کھلبلی مچا دی اور ماہرین کو چوکنا کردیا۔

جب ایلون مسک نے یہ سوال صارفین کے سامنے رکھا تو انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ چند ممتاز شخصیات کی جانب سے یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ اصولی طور پر ٹوئٹر کو انہیں ادائیگی کرنی چاہیے کیونکہ ان کی اثر پذیری کی وجہ سے لاکھوں صارفین اس سائٹ کا رخ کرتے ہیں۔ امیتابھ بچن اور شاہ رخ خان کے معاملے میں یہ نکتہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔

جن افراد نے ٹوئٹر کے تصدیقی بلیو ٹک کے لیے فیس مقرر کرنے پر تنقید کی، ان میں ایک نام عہدِ حاضر کے ممتاز فکشن نگار اسٹیفن کنگ کا بھی ہے۔

اسی طرح معروف امریکی جرنلسٹ ڈیوڈ میک نے بھی ایک مرحلے پر فیس کی ادائیگی پر تصدیقی بیج سے محرومی کو ترجیح دینے کا اشارہ دیا تھا۔

البتہ ایلون مسک دھن کے پکے تھے۔ انہوں نے اپنے کہے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جہاں ایک جانب 8 ڈالر ماہانہ میں صارفین کے لیے بلیو ٹک کی سبسکرپشن کا آغاز کردیا وہیں لیگیسی بلیو ٹکس کے حتمی خاتمے کے لیے 20 اپریل کی تاریخ کا سنسنی خیز اعلان بھی داغ دیا۔

اس سے قبل ٹوئٹر کی جانب سے یکم اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور 2 اپریل کو ’دی نیویارک ٹائمز‘ اپنے بلیو ٹک سے محروم ہوگیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دی نیویارک ٹائمز نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس سروس کے لیے ادائیگی نہیں کریں گے۔ ایلون مسک کی جانب سے مذکورہ میڈیا گروپ کی طرزِ صحافت کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا لیکن ادارے نے خاموشی کو ترجیح دی۔

ایک طرف یہ صورتحال ہے کہ ’دی نیویارک ٹائمز‘ جیسا تاریخی اہمیت کا حامل صحافتی ادارہ اپنے تصدیقی بلیو ٹک سے محروم ہوگیا ہے وہیں معمولی معاوضے کے عوض عام صارفین کے روپ میں موجود ٹرولز، پروپیگنڈا ماہرین اور پیروڈی اکاؤنٹس تیزی سے تصدیقی بلیو ٹک حاصل کررہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف صارفین الجھن کا شکار ہوگئے ہیں بلکہ فیک نیوز اور مس انفارمیشن کا اندیشہ بھی آسمان کو چُھو رہا ہے کیونکہ اب خریدے گئے بلیو ٹکس اور لیگیسی بلیو ٹکس اکاؤنٹس میں فرق کرنے کا طریقہ گڈمڈ ہوچکا ہے۔ یہ تصدیق دشوار ہے کہ فقیر کے بھیس میں موجود شخص واقعی فقیر ہے یا ایک فتنہ؟

اور یہ معاملہ ہماری توقع سے زیادہ سنگین ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ 2 ایٹمی قوتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ہے۔ ایک نے دوسرے کا طیارہ مار گرایا ہے۔ ہر پل قیمتی ہے۔ دنیا بھر کی نظریں ان ممالک کے عسکری و حکومتی ٹوئٹر اکاؤنٹس پر ٹکی ہیں۔ ایسے میں اگر اچانک سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرنے لگے کہ ایک فریق کی فوج کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایٹمی حملے کی ٹویٹ داغ دی گئی ہے تو پوری دنیا میں سنسنی پھیل جائے گی۔ اس خبر کی تصدیق ہونے سے قبل ہی خاصی کھلبلی مچ چکی ہوگی۔

مذکورہ مثال میں چند برس قبل جنم لینے والی پاک بھارت سرحدی کشیدگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ البتہ جو اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس کا تعلق ماضی سے نہیں بلکہ حال سے ہے، کیونکہ مس انفارمشن کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے ٹوئٹر پر پاک فوج کے شعبہ برائے تعلقات عامہ جیسے حساس ادارے کا پیروڈی اکاؤنٹ ویریفائیڈ ٹک حاصل کرچکا ہے جس کی پیشکش کا انداز اصل سے اس قدر مشابہہ ہے کہ یہاں جنم لینے والی معمولی سی غلطی یا مذاق بھی کسی بڑے بگاڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اندازہ لگائیں کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو کل عمران خان، نواز شریف اور بلاول بھٹو کے پیروڈی اکاؤنٹس بھی وجود میں آجائیں گے جو اپنی وضع قطع اور پیشکش کی وجہ سے عام صارفین میں اصل ہونے کا التباس پیدا کرسکتے ہیں اور یوں مس انفارمیشن اور فیک نیوز کو پَر لگ جائیں گے بلکہ کہہ لیجیے کہ پَر لگ چکے ہیں۔

سرکاری اداروں اور کمپنیوں کے ’جعلی ویریفائیڈ اکاؤنٹس‘ کیا قہر ڈھا سکتے ہیں، اس کی مثال ہم مشہور امریکی دوا ساز کمپنی ایلائی للی کے کیس میں دیکھ چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ نومبرمیں کمپنی کے نام پر موجود تصدیقی بلیو ٹک کے حامل ایک اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کی گئی، جس میں اعلان یہ کیا گیا تھا کہ اب ذیابیطس کے مریضوں کو انسولین مفت فراہم کی جائے گی۔

یہ ٹوئٹ امریکا میں موجود ذیابیطس کے لاکھوں مریضوں کے لیے تو خوش آئند تھی، مگر اس سے دوا ساز مارکیٹ میں سراسمیگی پھیل گئی اور کمپنی کے حصص میں گراوٹ ہونے لگی۔ بعدازاں جب کمپنی نے اپنے اصل اکاؤنٹ سے وضاحتی ٹوئٹ جاری کی تو اُسے زیادہ نہیں سراہا گیا۔ کیونکہ ایک عرصے سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ کم قیمت پر انسولین کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس پریشان کُن واقعے کے بعد کمپنی نے ٹوئٹر پر اپنے اشتہارات نہ چلانے کا اعلان کردیا اور ٹوئٹر انتظامیہ کو کچھ دیر کے لیے بلیو ٹک سبسکرپشن روکنی پڑی۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ کمپنی کو اربوں کا نقصان ہوچکا تھا اور اس کے حصص میں واضح کمی دیکھی گئی تھی۔

اسی تصدیقی سبسکرپشن سے فائدہ اٹھاتے والوں میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا ایک جعلی اکاؤنٹ بھی شامل تھا۔ ایسی مزید مثالیں بھی موجود ہیں۔

ایلون مسک کے فیصلوں سے انتشار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس مسئلے کے سدباب کے لیے ادارے کی جانب سے گولڈن اور سلور ٹک کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا مگر ٹوئٹر کے بلیو ٹک سے جڑا اعتبار، صارفین کے فکری ڈھانچے کا حصہ بن چکا ہے جس کی شکست و ریخت نہ صرف ٹوئٹر، بلکہ پورے سوشل میڈیا کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔

ایک طرف ٹوئٹر پر سچ اور جھوٹ میں فرق مٹتا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف ایلون مسک نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی آمد کے بعد اس پلیٹ فارم پر مس انفارمشن کا تناسب کم ہوا ہے اور یہ کہا کہ بوٹس کو ختم کرنے کی کوششوں سے جعلی خبروں میں کمی آئے گی۔

البتہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ بی بی سی کی ہی رپورٹ کے مطابق کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ایلون مسک کی ٹوئٹر میں آمد کے بعد مس انفارمیشن پھیلانے والے اکاؤنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوئی جب ایلون مسک، جو اس پلیٹ فارم سے وابستہ اعتماد میں ایک بڑا شگاف ڈال چکے ہیں، بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہتے نظر آئے کہ ٹوئٹر چلانا ایک تکلیف دہ عمل رہا ہے اور اگر صحیح شخص نظر آیا تو وہ اُسے کمپنی فروخت کردیں گے۔

تو کیا ٹائی ٹینک کو ڈبونے کے بعد اس کا کپتان لائف بورڈ میں بیٹھ کر فرار ہونے کا سوچ رہا ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں