لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

پاک بھارت تعلقات کا موجودہ منظرنامہ کافی پیچیدہ ہے۔ طویل سفارتی تعطل اب بھی برقرار ہے جبکہ اس میں مزید تلخیاں پیدا ہونے کے باعث اختلافات اور تنازعات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

جب رواں سال کے جی 20 سربراہی اجلاس کے میزبان بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سری نگر میں جی 20 ٹیوریزم ورکنگ گروپ کا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا تو اس پر اسلام آباد کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

وزارت خارجہ کے ایک بیان نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا اور اسے بھارت کی جانب سے ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جموں و کشمیر پر اپنے غیرقانونی قبضے کو برقرار رکھنے‘ کے طور پر بیان کیا۔ وزارتِ خارجہ نے دہلی کی جانب سے لیہہ اور سری نگر میں مشاورتی یوتھ افیئرز فورم (Y20) کے 2 دیگر اجلاس کے شیڈول پر بھی اعتراض کیا۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس نے مسلم ممالک اور چین پر زور دیا ہے کہ وہ متنازعہ خطے میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں شرکت سے اجتناب کریں۔

اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں غیرقانونی الحاق کے بعد ان اجلاسوں کے ذریعے بھارت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر میں حالات معمول پر ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا ردِعمل متوقع تھا۔

بھارت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں، فوجی محاصرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے مقبوضہ وادی کی صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو بےاختیار کرنے کے لیے دہلی گزشتہ 3 سالوں میں متعدد قانونی، آبادیاتی اور انتخابی تبدیلیاں بھی لےکرآچکا ہے۔ پاکستان کے احتجاج نے بھی بی جے پی حکومت کو ایسے اقدام اٹھانے سے نہیں روکا۔

دونوں ہمسایوں کے درمیان بات چیت اور قیام امن کا عمل تو بھارت کے اگست 2019ء کے غیرقانونی اقدام سے بہت پہلے ہی معطل ہوچکا تھا۔ لیکن اگست 2019ء کے بعد تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر چلے گئے۔ پاکستان نے تجارت معطل، اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلاکر اور سفارتی تعلقات محدود کرکے، دہلی کے اس غیر قانونی اقدام کا جواب دیا۔

تاہم دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے پسِ پردہ مذاکرات کے باعث 2021ء میں دونوں فریقوں کی طرف سے 2003ء میں کی جانے والی مفاہمت کے مطابق لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ فروری 2019ء میں بالاکوٹ کشیدگی کے بعد دونوں ممالک خوفناک تصادم کے دہانے پر آگئے تھے۔

پسِ پردہ مذاکرات کے بعد جنگ بندی قائم رہی۔ لیکن یہ توقع کہ اس سے دونوں ممالک میں بات چیت کی راہ ہموار ہوگی، پوری نہ ہوسکی۔ دونوں ہمسایوں کی جانب سے سخت بیانات کے تبادلے کے ساتھ ہی سفارتی تعطل برقرار ہے۔

رواں سال بھارت کے پاس جی 20 اجلاس کی صدرات کے علاوہ 8 رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کی صدارت بھی موجود ہے جبکہ وہ جون میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سالانہ سربراہی اجلاس کی میزبانی بھی کرے گا۔ اس حیثیت میں بھارت پابند ہے کہ وہ 4 اور 5 مئی کو گوا میں منعقد ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کو بھی مدعو کرے۔

اگرچہ اسلام آباد کی جانب سے شرکت کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا لیکن ایسے بہت ہی کم مواقع ہیں کہ پاکستان نے کثیرالجہتی فورمز کے اجلاس میں شرکت نہ کی ہو چاہے وہ بھارت میں ہی منعقد کیوں نہ ہوں۔ جہاں تک جون میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کی شرکت اس بات پر منحصر ہے کہ آیا چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اس اجلاس میں شریک ہوں گے یا نہیں۔

حالیہ چند ماہ میں پاک-بھارت تعلقات میں نتیجہ خیز پیش رفت 1960ء میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کی صورت میں ہوئی۔ یہ معاہدہ گزشتہ 6 دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان جنگوں، تصادم اور تناؤ کو برداشت کرتا رہا ہے۔ لیکن سرحد پار دریاؤں کے اشتراک اور انتظام کو سنبھالنے والے اس معاہدے کے مستقبل پر سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔

20 جنوری 2023ء کو بھارت نے انڈس کمیشن کے ذریعے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کرنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ اس سے بھارت کی پوزیشن میں سختی اور پاکستان کے اندرونی سیاسی اور معاشی بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی عکاسی ہوتی ہے۔

پاکستان، بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر بنائے جانے والے 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈروالیکٹرک پروجیکٹ کی کافی طویل مدت سے مخالفت کررہا ہے۔

یہ تنازع کئی دہائیوں سے دوطرفہ مذاکرات اور پرمننٹ انڈس کمیشن کے اجلاس میں اٹھایا جارہا ہے۔ 2016ء میں پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا جوکہ اس معاہدے کا ثالث اور دستخط کنندہ بھی ہے۔ پاکستان کا مؤقف تھا کہ عالمی بینک اس معاہدے میں شامل شق کے تحت اس تنازع کے حل کے لیے ایڈہاک ثالثی عدالت مقرر کرے۔

2018ء میں بھارت نے تو کشن گنگا پروجیکٹ مکمل کرلیا لیکن عالمی بینک کو عدالت کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے ایک غیرجانب دار ماہر طلب کرنے میں 6 سال کا وقت لگا۔ معاہدے میں موجود تنازعات کو حل کرنے کے ان دونوں طریقوں کی منظوری دی گئی تھی۔ ہیگ میں 27 جنوری کو ہونے والی پہلی عدالتی سماعت سے 2 دن قبل (جس کا بھارت نے بائیکاٹ کیا)، دہلی نے اسلام آباد کو نوٹس جاری کیا کہ وہ پاکستان کی ’تنازعات کو نمٹانے میں عدم دلچسپی‘ کی وجہ سے یک طرفہ طور پر معاہدے میں ترمیم کرے گا۔

اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دہلی کسی بھی عدالتی کارروائی سے بچنے کی کوشش اور مجوزہ معاہدے میں ترمیم کے ذریعے تنازعات میں تیسرے فریق کی ثالث کی مداخلت کو روکنے کے ارادے رکھتا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 30 دنوں میں ’نوٹس‘ کا جواب دے۔

پاکستان نے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کے حوالے سے مذاکرات کرنے کے بھارتی مطالبے کو مسترد کردیا اور بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ ہیگ میں ہونے والی ثالثی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔

لیکن اپریل کے اوائل میں پاکستان نے انڈس واٹرز کمشنر کی جانب سے خط کے ذریعے بھارت کو ’ترمیم کے نوٹس‘ کا جواب دیا۔ یہ خط منظرعام پر نہیں آیا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ خط ’نوٹس‘ پر وضاحت طلب کی گئی ہے، دہلی کے خدشات کو سننے کی کوشش کی گئی ہے اور اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں یک طرفہ ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

پانی کے بحران کا شکار پاکستان کے لیے اس اہم تنازع نے ماحول کو مزید خراب کردیا ہے۔ حتیٰ کہ کرکٹ بھی اس دوطرفہ کشیدگی کی لپیٹ میں آنے سے نہیں بچ سکی۔ رواں سال ستمبر میں ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے تحت ہونے والے ایشیا کپ میں پاکستان کی باری ہے کہ وہ ایشیا کپ کی میزبانی کرے۔ اے سی سی کے صدر بھارتی کرکٹ بورڈ کے جے شاہ ہیں جوکہ بی جے پی کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے ہیں۔

میزبان ملک پاکستان سے مشورہ کیے بغیر جے شاہ نے یک طرفہ طور پر جنوری میں ٹورنامنٹ کے شیڈول کا اعلان کردیا۔ جب فروری میں پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے بورڈ میٹنگ میں اس بات پر احتجاج کیا تو جے شاہ نے بھارت کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ اسی معیار کے مطابق بھارت میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کی شرکت کرنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔ انہوں نے ایک ہائبرڈ آپشن پیش کیا جس کے تحت بھارت کے میچ غیرجانبدار مقام پر کھیلے جائیں جبکہ بقیہ میچ پاکستان میں کھیلے جائیں، یہ فارمولا بعد میں ورلڈ کپ پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔ تاہم معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔

پاک-بھارت تعلقات پر بدستور غیریقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اگرچہ عملی مسائل پر سفارتی مصروفیات وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

امکان یہی ہے کہ دونوں ممالک جنگ کریں گے نہ ان کے درمیان امن قائم ہوگا۔ ترجیحی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ تناؤ کو قابو میں کیا جائے اور اسے قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے لیکن تناؤ کو کم کرنے کی راہ نکالنے کے لیے فریم ورک کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 17 اپریل 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں