مہندی یا حنا خواتین کے سنگھار کا اہم حصہ ہے، اس کے بغیر ہر تہوار اور دیگر خوشیوں کی تقاریب ادھوری سمجھتی جاتی ہیں۔

یہ ایک ایسا فیشن ہے جسے ہر عمر کے بچے اور خواتین بلا جھجک اپناتے ہیں۔

مہندی کی تاریخ

مہندی سنسکرت کے لفظ میندھیکا سے ماخوذ ہے اور اسے عربی زبان میں حنا کہتے ہیں، اس کے پودے کے پتوں میں لال نارنجی رنگ کا مالیکیول ہوتا جو جلد، بالوں اور ناخن کو عارضی طور پر سرخ رنگ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بالوں کو عارضی رنگ دینے کے زمانے سے قبل مہندی کے پتوں کو خشک کیا جاتا تھا اور پھر انہیں پیس کر پاؤڈر بناکر اس کا پیسٹ بنایا جاتا تھا اور پھر اسے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ہاتھوں، پیروں اور جسم کے دیگر حصے پر مہندی لگانے کا رواج کم از کم 5 ہزار سال پرانا ہے۔

بعض مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ مہندی کی تاریخ ابتدائی طور پر بھارت سے ملتی ہے جبکہ دیگر کا دعویٰ ہے کہ ہاتھوں اور پیروں کو مہندی سے سجانے کا رواج 12ویں صدی میں مغلوں کے دور سے چلا آرہا ہے۔

مہندی کے قدیم ڈیزائن اور ان میں جدت

قدم زمانے میں مہندی صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں لگائی جاتی تھیں لیکن آج کے جدید زمانے میں اسے ہر تہوار کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ مہندی کے ڈیزائن میں بھی جدت آرہی ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ میری امی کہا کرتی تھیں کہ ان کے زمانے میں مہندی کو لگانے کے لیے وقت اور محنت درکار ہوا کرتی تھی، مہندی کو ہاتھوں پر ٹکیا یا انگلیوں کے پوروں پر لگایا جاتا تھا اور خوبصورت رنگ آنے کے لیے اس کو پوری رات لگایا جاتا تھا۔

تاہم اگر اس کے ڈیزائن کے حوالے سے بات کی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت آتی جارہی ہے، لڑکیاں نت نئے اور مختلف ڈیزائن انٹرنیٹ سے سرچ کرکے لگواتی ہیں۔

اسی حوالے سے ڈان نیوز نے مہندی آرٹسٹ فرح ناز سے بات کی، وہ پیشے کے اعتبار سے تو ڈاکٹر ہیں لیکن انہیں بچپن سے مہندی لگانے کا شوق رہا ہے، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے 1980 سے لے کر اب تک مہندی کے ڈیزائن میں جدت کو قریب سے دیکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 80 کی دہائی میں کوئی ڈیزائن نہیں ہوتا تھا، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی نہیں تھی، گیلی مہندی کو رات کو سونے سے قبل ہتھیلی میں لگا کر مٹھی بند کرلی جاتی تھی ، صبح اٹھنے پر اس کا خوبصورت رنگ ہوتا تھا۔

پھر کچھ سال بعد ہی گیلی مہندی کو ہاتھ شہادت کی انگلی کی مدد سے ہاتھوں پر نقطے اور گول دائروں سے سجا دیا جاتا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ کون (Cone) مہندی کا رواج 1987 سے 1990 کے درمیان آیا، اس وقت ایک مخصوص قسم کا ڈیزائن ہر کسی کے ہاتھ میں لگا دیا جاتا تھا۔

تاہم پھول والے ڈیزائن 1995 سے 2000 کے درمیان آناعام ہونا شروع ہوئے اور پھر بڑے پھولوں کےڈیزائن نے ان کی جگہ لی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے آج مختلف قسم کے پھولوں اور پتیوں کے علاوہ دیگر ڈیزائن آگئے ہیں جنہیں خواتین شوق سے لگواتی ہیں۔

اس عید پر مہندی کا کون سا ڈیزائن ٹرینڈ کررہا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ پرانے وقتوں میں مغلیہ طرز کی مہندی لگائی جاتی تھی، ہاتھوں کی چاروں سائیڈز مہندی کے ڈیزائن سے بھرے ہوتے تھے، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خود ہرسال لڑکیوں کے ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن بناتی ہیں، اس عید پر 14 سے 25 سال کی 80 فیصد لڑکیاں سادہ بیل (bail) یا ڈاٹڈ اسٹائل مہندی لگانے کی فرمائش کررہی ہیں۔

دوسری جانب 30 سال سے زائد عمر کی خواتین وہی ڈیزائن لگوانے کی فرمائش کررہی تھیں جو اس وقت شادی بیاہ میں لگائے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آج کل تین طرح کی مہندی ٹرینڈنگ پر ہیں جن میں آرگینک (organic) مہندی، سرخ مہندی اور کالی مہندی ہے، تاہم لڑکیاں آرگینک مہندی کو زیادہ ترجیح دے رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں