لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے نتائج نے وزیرِاعظم نریندر مودی کے مذہبی تعصب کو یکسر ناکام بنا دیا ہے۔ ہندی زبان کا ایک استعارہ ان نتائج کو اچھی طرح سے بیان کرتا ہے۔ استعارہ کچھ یوں ہے کہ ’بھوکے بھجن نہ ہووے گوپالا‘ جس کا مطلب ہے کہ ’اے خدا ہم چاہے آپ سے جتنا بھی پیار کرتے ہوں لیکن بھوکے پیٹ آپ کی تعریف بیان کرنا ناممکن ہے‘۔

ایک جانب جہاں بی جے پی نے مسلمانوں، ان کے لباس اور ان کے کھانوں کے خلاف اپنی فرقہ وارانہ انتہاپسندی جاری رکھی اور ہندو ووٹ بینک کے حصول کی خاطر مذہبی تقسیم کو مذموم طریقے سے فروغ دیا وہیں دوسری جانب کانگریس نے غربت کے خاتمے، غریبوں کو مفت چاول دینے، بجلی کے بل میں سبسڈی، بےروزگار گریجویٹس اور ڈپلوما ہولڈرز افراد کے لیے وظیفے اور کرناٹک بھر میں خواتین کے لیے مفت بس سروس کے وعدوں پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور مخالفین پر سبقت لے گئی۔

راہول گاندھی نے اپنے لانگ مارچ میں جن تفصیلات کا ذکر کیا انہوں نے وہ تمام اپنے انتخابی منشور میں شامل کیں۔ کانگریس نے بی جے پی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ فرقہ وارانہ کارروائیوں کے ذریعے امیر و غریب کے فرق سے توجہ ہٹا سکیں۔ کانگریس نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے خلاف عوام میں موجود غم وغصے کی حمایت کرتے ہوئے تمام نقصانات کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ساتھ ہی کانگریس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف بھی موثر انداز میں نمٹیں گے۔

ان وعدوں نے ان کی پرانی عادت کو دوبارہ زندہ کیا جہاں وہ ہندوتوا کے چیلنجز کا اقتصادی اور سماجی محاذ پر مقابلہ کرتے ہیں۔ کانگریس کا یہ پرانا انداز ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام اور غربت کے خلاف ریلیاں نکال کر اور بی جے پی کی فرقہ وارانہ تشدد کی سیاست سے ہونے والے سماجی نقصانات کی بھرپائی کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔

کانگریس کے اقدامات کے ثمرات بھی تیزی کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوئے۔ مسلمان ووٹرز دیوے گوڑا کی جنتا دل (سیکیولر) پارٹی کے سپورٹر تھے لیکن فرقہ وارانہ تفریق کے خلاف لڑنے کے وعدوں کی وجہ سے کانگریس مسلمان ووٹرز کی حمایت حاصل میں کامیاب ہوئی۔ بی جے پی کے ساتھ اس جماعت کی قربت کا فائدہ انتخابات میں کانگریس کو ہوا اور اس کے ووٹ 43 فیصد رہے جوکہ 2018ء کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ ہیں۔ تاہم بی جے پی کے ووٹ کم و بیش 36 فیصد پر برقرار رہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو بی جے پی کے ووٹوں میں 0.5 فیصد تک کمی آئی ہے۔

بی جے پی نے تو مسلمان امیدواروں کو موقع دینے سے گریز کیا لیکن کانگریس نے 15 مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا جن میں سے 9 کامیاب ہوئے۔ علامتی اور مادی طور پر بھی مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیےکانگریس نے مسلمانوں کے نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے مختص 4 فیصد کوٹے کو بحال کرنے کا وعدہ کیا۔ بی جے پی نے اس کوٹے کا خاتمہ کردیا تھا اور اسے دو برابر حصوں میں دو ہندو ذاتوں میں تقسیم کردیا تھا۔

سب سے بڑھ کر کانگریس نے یہ وعدہ کیا کہ وہ بجرنگ دل جیسے گروہوں اور انتہاپسند ہندوتوا سوچ رکھنے والوں کی سرپرستی میں سڑکوں پر پُرتشدد حملوں پر لگام ڈالے گی۔ بجرنگ دل کا نام بھگوان راما کے معاون ہنومان کی نسبت سے ہے۔ انتخابی مہم کا دلچسپ لمحہ وہ تھا جب کانگریس کے بجرنگ دل کی انتہاپسندی کو لگام ڈالنے کے وعدے کو انتخابی مہم کے آخری لمحات میں نریندر مودی نے ہنومان کی تذلیل قرار دیا۔ یوں مودی کی حمایت کرنے والے میڈیا چینلز کا یہ مرکزی بیانیہ بن گیا۔ انتخابی نتائج کو وزیراعظم کی جانب سے ہندو دیوتا کو ایک انتہاپسند گروہ سے تشبہیہ دینے پر سرزنش کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

بھارتی ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے ذریعے ہونے والے پروپیگنڈے سے بی جے پی نے مخصوص ذات سے تعلق رکھنے والے دو ہندو کردار تیار کیے جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے انگریزوں کو چیلنج کرنے والے میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کو قتل کیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو سلطان کا تختہ مراٹھوں، برطانیہ اور حیدرآباد کے نظام کی مشترکہ فوج نے مئی 1799ء میں الٹا تھا۔ بی جے پی نے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے اور انہیں درسی کتابوں سے غائب کرنے کی مہم بھی شروع کررکھی ہے۔

فکری قوت کو بحال کرنے کے لیے یا جمہوری اداروں کو ممکنہ بغاوت کے خلاف تیار کرنے کے لیے اپوزیشن کو 2024ء کے انتخابات میں نریندر مودی کو شکست دینا ہوگی۔ تجزیہ کاروں نے کرناٹک کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا اور اسے مودی کے دور کے خاتمے کا اشارہ سمجھا۔ ان انتخابات میں 224 نسشتوں پر مشتمل قانون ساز اسمبلی میں کانگریس نے متاثر کُن طور پر 135 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ بی جے پی نے 66 نشستیں حاصل کی ہیں۔

تاہم رواں سال عام انتخابات سے قبل ہمیں اور بھی مقابلے بازی دیکھنے کو ملے گی جہاں بی جے پی کا ٹاکرا کانگریس سے ہوگا۔ آنے والے دنوں میں راجستھان جہاں کانگریس کی حکمرانی ہے اور مدھیا پردیش جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، ان دونوں ریاستوں کے انتخابات بھی خاص اہمیت کے حامل ہوں گے۔

شمالی ریاست میں فرقہ وارانہ انتہاپسندی کو ختم کرنے کا وعدہ کرنے سے زیادہ کانگریس کے لیے بی جے پی کے ہاتھ سے جنوبی ریاست کی حکمرانی چھیننا آسان ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست واضح طور پر شمال اور جنوب میں تقسیم ہے۔ جب 1977ء میں اندرا گاندھی کو شمال میں ایمرجنسی کے بعد انتخابات میں شکست ہوئی تو جنوبی ریاستیں کانگریس کے ساتھ کھڑی ہوئیں۔

ایسے میں اندرا گاندھی نے چکمگلور سے ان کے لیے خالی کی گئی لوک سبھا کی نشست پر کامیاب ہوکر کرناٹک سے ایک بار پھر اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ ایک نعرے نے جناتا پارٹی کا خوب مذاق بنایا جو کانگریس سے شکست کے بعد اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی۔ وہ نعرہ یہ تھا کہ ’ایک شیرنی سو لنگور۔ چکمگلور بھائی چکمگلور‘۔

تو کیا آج ریاستِ کرناٹک کانگریس کی سیاست کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے؟ یا سوال کو کچھ یوں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے کہ جیسے راہول گاندھی کے لانگ مارچ کے جادو نے کرناٹک کے طاقتور مقامی لیڈران کو زیر کیا ہے کیا اسی طرح یہ جادو اب مدھیا پردیش میں بی جے پی کے خلاف بھی چلے گا؟ دوسری جانب راجستھان میں کانگریس منقسم ہے جہاں وزیراعلیٰ نے اندرونی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے سابق بی جے پی ہم منصب سے مدد لینے کا اعتراف کیا ہے۔

5 سال قبل کانگریس یہاں سے 39.3 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی جوکہ 2013ء میں حاصل ہونے والے ووٹوں سے 6 فیصد زیادہ تھے۔ اس وقت اس نے صرف 21 نشستیں ہی جیتی تھیں۔ اس کے مقابلے میں بی جے پی کے ووٹ 45.2 سے کم ہوکر 38.8 فیصد ہوگئے تھے، یعنی اس میں 6.4 کا واضح فرق دیکھا گیا تھا۔ آج یہ دونوں جماعتیں تقریباً برابر ہیں۔ اب انحصار اس بات پر ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کے حوالے سے کانگریس کیا پالیسی اپنائے گی۔ کیا یہ جماعتیں اپنے نظریاتی اختلافات سے بچتے ہوئے کم از کم مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرسکیں گی؟

کانگریس جس انداز میں بی جے پی کے انتہا پسند تصورات سے نمٹی ہے اس تناظر میں کرناٹک کانگریس کے لیے ایک اچھی شروعات ہے۔ کانگریس کی ساری توجہ سیکولر معاملات پر ہی رہی۔ اب یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا شمالی ریاستوں کے ووٹرز بھوکے پیٹ کسی کی مدح سرائی کے لیے تیار ہیں؟


یہ مضمون 16 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں