لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

15 مئی کو قومی اسمبلی نے توہینِ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) بل 2023ء منظور کرلیا۔ تاہم قانون بننے سے قبل یہ بل ابھی سینیٹ اور صدر مملکت کی جانب سے منظور ہونا باقی ہے۔

اس عمل سے گزرنے کے بعد ہی اس قانون کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جو اس قانون کے نفاذ کو روک سکتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیے گئے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023ء کے معاملے میں کیا تھا۔

قومی اسمبلی میں منظور کیے گئے توہینِ پارلیمنٹ بل 2023ء میں، کسی بھی شخص کو پارلیمنٹ یا اس کے ارکان کی توہین کے مرتکب پائے جانے پر 6 ماہ تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے یا دونوں سزائیں بیک وقت دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

’توہین‘ کی تعریف کسی رکنِ پارلیمنٹ کے استحقاق کی خلاف ورزی کرنا، قانون سازوں کو استثنیٰ یا مراعات کی ضمانت دینے والے قوانین کی خلاف ورزی کرنا، پارلیمنٹ یا اس کی کمیٹیوں کے احکامات کی تعمیل نہ کرنا، ثبوت دینے سے انکار کرنا یا کمیٹی کے سامنے جھوٹا بیان ریکارڈ کروانا، کسی گواہ کو ثبوت فراہم کرنے، دستاویزات پیش کرنے یا کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کرنا یا اس پر اثر انداز ہونا، اور کوئی بھی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکامی یا کسی ایوان یا کمیٹی کے سامنے دستاویزات جمع نہ کروانا یا غلط دستاویزات جمع کروانا، بیان کی گئی ہے۔

بہ ظاہر یہ بل آئین کے آرٹیکل 66 کی بنیاد پر بنا ہے جوکہ ارکانِ پارلیمنٹ کے استحقاق سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 66 کی شق 3 کہتی ہے کہ ’کسی ایوان کی طرف سے ایسے اشخاص کو سزا دینے کے لیے قانون کے ذریعے حکم وضع کیا جاسکے گا جو اس ایوان کی کسی کمیٹی کے سامنے کوئی شہادت دینے یا کوئی دستاویز پیش کرنے سے انکار کردیں جبکہ انہیں اس کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے باضابطہ طور پر ایسا کرنے کو کہا گیا ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون (الف) کسی عدالت کو یہ اختیار دے سکے گا کہ وہ ایسے شخص کو سزا دے جو شہادت دینے یا دستاویزات پیش کرنے سے انکار کرے اور (ب) ایسے فرمان کے طابع مؤثر ہوگا جو صدر کی طرف سے خفیہ معلومات کو افشا ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا ہو‘۔

اگرچہ یہ بل قومی اسمبلی کے خفیہ معاملات کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن یہ عدالت کو توہینِ پارلیمنٹ کے مرتکب شخص کو سزا دینے کا اختیار نہیں دیتا۔

اس کے بجائے یہ بل پانچ رکنی ’توہینِ پارلیمان کمیٹی‘ کے قیام کی تجویز پیش کرتا ہے جس میں اسپیکر کی طرف سے نامزد کردہ قومی اسمبلی کے ایک رکن اور سینیٹ اور قومی اسمبلی کے 2، 2 اراکین، جن میں ایک کو قائد ایوان جبکہ دوسرے کو قائدِ حزبِ اختلاف نامزد کریں گے، شامل ہیں۔

بل میں کمیٹی کے چیئرپرسن کا انتخاب اور سیکریٹری قومی اسمبلی کے توہین پارلیمان کمیٹی کے سیکریٹری کے طور پر کام کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اس قانون کے تحت کمیٹی کے فیصلے کے خلاف اپیل قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ پر مشتمل اپیلٹ فورم کے سامنے دائر کی جاسکتی ہے جبکہ سیکریٹری سینیٹ اپیلٹ فورم کے سیکریٹری کے طور پر ذمہ داری ادا کریں گے۔

جرائم کا شیڈول مجوزہ قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسپیکر کو چیئرمین سینیٹ سے مشاورت کرکے اس شیڈول میں ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اب تک کسی قانون کی عدم موجودگی کی وجہ سے پارلیمنٹ کی توہین سے متعلق معاملات دونوں ایوانوں کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس کے تحت نمٹائے جا رہے تھے۔ ہر ایوان کی رول بک میں ایک الگ باب ارکان کے استحقاق سے متعلق موجود ہے۔

تمام 6 قانون ساز اداروں کے استحقاق سے متعلق قواعد تقریباً ایک جیسے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان قوانین میں قانون سازوں، کمیٹیوں اور ایوانوں کے استحقاق کی خلاف ورزی کی سزا کے بارے میں بنیادی تفصیلات بھی موجود نہیں ہیں۔

سزا کے بارے میں تفصیلات کا یہ فقدان دلیل فراہم کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے لیے توہین کا قانون بنایا جائے۔ ایک بار جب یہ قانون نافذ ہوجائے گا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں بھی اسمبلیوں کی توہین کے معاملے کو حل کرنے کے لیے اسی طرح کے قوانین بنائیں گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ سے متعلق قواعد بھی پارلیمانی استحقاق کی خلاف ورزی پر سزا کی تفصیلات فراہم نہیں کرتے ہیں حالانکہ قواعد میں ممکنہ سزا کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کے لیے قانون بنانے کے امکان کا ذکر کیا گیا ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ نے بہ ظاہر اب تک توہین پارلیمان کا قانون بنانے کی کوشش نہیں کی۔

پاکستان میں پارلیمنٹ کی توہین سے متعلق قانون کی ضرورت بہ ظاہر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری محاذ آرائی کے پس منظر میں محسوس کی گئی۔ پاکستان میں توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں اور کم از کم ایک منتخب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، جنہیں قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل تھا کو 2012ء میں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزام میں نہ صرف برطرف کیا بلکہ 5 سال تک الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار دیا۔ تاہم پارلیمان کے پاس اس قسم کا کوئی قانون نہیں ہے۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے حال ہی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کے لیے 21 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری کے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان اسمبلیوں کو پارٹی چیئرمین عمران خان کے کہنے پر، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ صوبائی وزرائے اعلیٰ کی جانب سے قبل از وقت تحلیل کردیا گیا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کے اراکین نے خدشہ ظاہر کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کا بھی یوسف رضا گیلانی جیسا انجام ہوسکتا ہے۔ توہین پارلیمنٹ کا قانون بہ ظاہر پارلیمنٹ کی طرف سے ایک ’جیسے کو تیسا‘ کی طرح کا اقدام نظر آتا ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ مجوزہ قانون پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمنٹ کو اپنے استحقاق کے تحفظ میں کس حد تک مدد دے گا۔


یہ مضمون 20 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں