لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی سیاسی قوت میں کمی آرہی ہے۔ پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے باعث اس کے رہنما اور انتخابی امیدوار عمران خان کو تنہا اور اکیلا چھوڑ کر پارٹی سے سے رخصت ہورہے ہیں۔

مین اسٹریم میڈیا پر عمران خان پر پابندی کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ خاموش اور تنہا نظر آرہے ہیں۔ لیکن ہمیں پھر بھی انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ نہ تو پی ٹی آئی کا خاتمہ ہے اور نہ ہی عمران خان کا۔

ہم پہلے بھی 1970ء اور 1990ء کی دہائی میں اسی طرح کے حالات سے گزر چکے ہیں جب ہم نے دیکھا کہ کس طرح کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ اور 2000ء میں مسلم لیگ (ن) کی صورت میں سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی جاچکی ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کے لیے کچھ وقت کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے گرین سگنل کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سیاسی جماعت کی موت یا اس کی بقا کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار صرف پاکستان کے عوام کے پاس ہوتا ہے۔

نا دیدہ قوتیں سیاسی جماعتوں کو روک سکتی ہیں، کمزور کرسکتی ہیں، حتیٰ کہ ان کی ساکھ کو بھی شدید حد تک متاثر کرسکتی ہیں لیکن ان کی بقا کا حتمی فیصلہ عوام ہی کرتے ہیں۔ ایسا میں اس لیے کہہ رہی ہوں کیونکہ ماضی میں، اسی طرح کی پیش گوئیاں میں بھی کرچکی ہوں اور ممتاز سیاسی مبصرین کے تجزیات بھی پڑھ چکی ہوں جو سب غلط ثابت ہوئے۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان مزید کتنا عرصہ انتظار کریں گے اور دوسرا فریق آخر کب تک اپنا موجودہ رویہ برقرار رکھے گا؟ اس بار نواز شریف کی پارٹی کو اقتدار واپس سنبھالنے میں محض ساڑھے 3 سال کا وقت لگا۔

لیکن اگر پی ٹی آئی کو ’ہینڈل‘ کر بھی لیا جاتا ہے تب بھی ملکی صورت حال واضح نہیں ہوگی۔ البتہ بڑے سیاسی سوالات اپنی جگہ موجود ہیں جبکہ اس وقت جو خاموشی ہے، یہ آنے والے دنوں کے بارے میں اور مستقبل کے سیٹ اپ اور معیشت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں منتخب حکومتیں نہیں ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی معیاد بھی ختم ہونے والی ہے۔ اب جب پی ٹی آئی کلین سویپ کرنے کی حالت میں نہیں ہے تو کیا اب انتخابات کا انعقاد ہوگا؟ اور اگر نہیں ہوں گے تو ایک مستحکم سیٹ اپ کیسے وجود میں آئے گا؟ اور یہ سیٹ اپ نگران ہو، ٹیکنوکریٹک ہو یا کوئی بھی آخر کتنا عرصہ چل پائے گا؟

استحکام کی بنیاد طاقت کے اظہار یا قوانین کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے علاوہ کسی اور عنصر پر ہونی چاہیے۔ یہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے جہاں ریاست زیادہ مضبوط نہیں ہے (چاہے لوگ اس بارے میں کچھ بھی سوچیں)۔ یہ ریاست معاشی طور پر بھی کمزور ہے جو حالات کی سنگینی میں اضافہ کرتی ہے۔

ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بین الاقوامی برادری کی بڑھتی ہوئی دلچسپی جلد یا بہ دیر ہم پر دباؤ پیدا کرے گی۔ صحافیوں کا لاپتا ہونا، فوجی عدالتوں میں مقدمات کا چلنا، خواتین کو ہراساں کرنا (بلکہ اس سے بھی بدتر واقعات)، یہ سب کچھ بین الاقوامی برادری اسی ریاست میں نظرانداز کرسکتی ہے جس کی معیشت مضبوط ہو اور پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے۔ پی ٹی آئی پر دباؤ شاید کم نہ ہو لیکن ایسا کرنا پڑے گا۔

یہ مسئلہ اپنی ساکھ کو محفوظ کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ معاشی استحکام کی مکمل عدم موجودگی اور اس وقت ملک کے دو صوبوں کی مقبول جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے ذمہ دار لوگوں کو سوچنا ہوگا اور عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت پر غور کرنا ہوگا۔ معاشی مشکلات کے دوران سیاسی دباؤ بڑھانا کوئی اچھا خیال نہیں ہے خاص طور پر اس وقت ہمارے اردگرد لوگ موقع کی تلاش میں بیٹھے ہوں۔

کچھ لوگ اس صورت حال کو مصر یا میانمار سے تشبیہ دیں گے۔ لیکن پاکستان مصر کے مماثل ہونے کے باوجود اس سے کافی مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ہماری تاریخ میں کوئی حسنی مبارک نہیں گزرا جس نے دہائیوں ہم پر حکمرانی کی ہو۔ ہم ایک دہائی میں ہی اپنے حکمرانوں سے تنگ بھی آجاتے ہیں اور ان سے اپنی جان چھڑالیتے ہیں۔ اگر کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ہم لوگ اسی احمقانہ راستے پر چلتے رہیں گے۔

میں اس موضوع کو ایک جانب رکھتی ہوں۔ یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے وقت میں ملک کے دو صوبوں کو سیاسی طور پر تنہا کرنے سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ جب معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ یہاں یہ سوچنا بھی بہت بڑی بےوقوفی ہوگی کہ بیرونی عناصر اس کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ ہم کئی مرتبہ اپنے عوام اور ان کے غصے کو نظر انداز کرچکے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس وقت دگنا محتاط رہنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوف اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ صورت حال پر غور کریں۔

محتاط انداز میں کہوں تو ایسا نہیں لگتا کہ عام انتخابات کے آپشن پر بالکل بھی غور نہیں کیا جارہا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نئی سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں کیوں آرہا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ جہانگیر خان ترین ایک بار پھر متحرک ہوچکے ہیں اور پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو ڈھونڈنے اور ساتھ ملانے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ مسلم لیگ (ق) بھی الیکٹیبلز کو پارٹی میں شامل کررہی ہے اور مریم نواز بھی انتخابی مہم چلاتی نظر آرہی ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اسٹیج تیار کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ہی انتخابات میں بہت مضبوط طاقت بن کر نہ ابھر سکیں؟ کیا خواہش اور مقصد یہی ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی کےپاس بھی واضح اکثریت نہ ہو؟

لیکن پارلیمنٹ کی ایسی صورت حال برقرار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور اتحادی حکومت وجود میں آئے گی جسے اپنے اتحادیوں کے مطالبات کی فکر اور معیشت کو بچانے کے لیے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ کیا اس طرح کی حکومت فیصلہ سازی میں خطرات مول لینے کے لیے تیار ہوگی؟

پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے باوجود بھی حالات ابھی واضح نہیں ہیں۔

نوٹ: اس حوالے سے آج کل سیاستدانوں اور مشکل حالات میں اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے کی ان کی صلاحیت کا تذکرہ بہت کیا جارہا اور یہ مثال بھی دی جارہی ہے کہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کس طرح ایسے حالات کا مقابلہ کیا تھا۔

لیکن شاید ہمیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرروت ہے کہ آخر 75 برس گزر جانے کے باوجود ہمیں ایسے پالیسی ساز کیوں نہیں مل سکے جو سخت حالات اور دباؤ برادشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور اگر ہمیں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے تو ہمیں اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ آج ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر کیوں ہے۔

دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو سوچتے ہیں کہ یہ صرف پی ٹی آئی کے بارے میں ہے، تو انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ فوجی عدالتوں یا انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے آواز کیوں نہیں بلند کررہے؟ اس بات سے قطع نظر کے ہمارے سیاسی نظام میں کیسے لوگ موجود ہیں، ہمارا سیاسی طبقہ بہتر حالات کا مستحق ہے۔ اگر ہم اس خاموشی کو غور سے سنیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ جس عتاب کا شکار ابھی ایک فریق بنا ہے اس کا شکار دیگر بھی بن سکتے ہیں۔


یہ مضمون 30 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں