شہری منصوبہ ساز اور ماہرین نے سال 2023 کی مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے گنتی کے عمل میں مختلف فرق ظاہر ہونے کی نشاندہی کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گنتی کے عمل میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے بڑی مقدار میں قیمتی ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جاسکا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شہری منصوبہ ساز اور محققین نے زور دیا ہے کہ مردم شماری کو صرف سیاسی معاملے کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ سماجی مسئلہ سمجھ کر دیکھا جائے اور بہتر شہری منصوبہ بندی اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔

ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں مردم شماری پر منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محقق ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ مردم شماری ایک اہم سماجی مسئلہ ہے۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ کسی بھی ریاست میں پانی، خوراک، تعلیم، سڑکیں، ہسپتالوں جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے درست آبادی کا تعین کرنا ضروری ہے اور جب تک یہ منصفانہ طریقے سے نہیں ہوتا، ملک ایک غیر معمولی حالت میں رہے گا، جو اس وقت پچھلے کئی برسوں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں سیاسی توجہ کے بجائے سماجی مسائل کو اہمیت دینی چاہیے۔

کراچی کی مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اربن پلانر (شہری منصوبہ ساز) محمد توحید نے کہا کہ کراچی میں مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی وجوہات کی بنیاد پر 2017 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ دکھائی گئی تھی۔

محمد توحید نے مزید کہا کہ اگر حقیقی اعداد و شمار سے گنتی کی جائے تو اعلان کیے گئے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان بنیادوں اور دیگر عوامل کی بنیادی پر کراچی کی آبادی 2 کروڑ 50 لاکھ سے کم نہیں ہے۔

محمد توحید نے مزید کہا کہ مردم شماری کے چار بنیادی مقاصد تھے، لوگوں کا معیار زندگی جاننا، وسائل کی تقسیم، انتخابی نمائندگی اور نشستوں کی تقسیم لیکن آخر والے دو ہمیشہ اس میں توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا معیار زندگی اور وسائل کی تقسیم اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر توجہ دینی چاہیے، مگر بدقسمتی سے ان تمام اہم مسائل پر ہمیشہ کم توجہ دی جاتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ غلط طریقے سے تیار کیے گئے سوالنامے کی وجہ سے بہت زیادہ قیمتی ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا جا سکا جس سے مستقبل میں شہری منصوبہ بندی کے دوران سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔

اربن پلانر نے سوال کیا کہ کیا وہ لوگ جنہوں نے سوالنامہ تیار کیا اور جنہوں نے اس پر بڑے پیمانے پر عمل کیا وہ اس بات سے بھی واقف تھے کہ کراچی میں لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔

محمد توحید نے مزید کہا کہ مردم شماری کے دوران سوال نامے میں اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ کراچی میں لوگ کس طرح رہتے ہیں، ان میں کتنے لوگوں کے پاس بجلی اور پانی کی فراہمی کی سہولیات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کوئی ڈیٹا نہیں ہے اور یہ مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے شہر کے پانی کے بحران کو حل کرنے میں مسائل پیدا کرے گا۔

مردم شماری کے دوران ’ڈی جیور طریقہ کار‘ کو ملک کے لیے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے محمد توحید نے کہا کہ اس طریقہ کار کی وجہ سے کراچی میں مقیم دوسرے صوبوں کے لوگوں کی بڑی تعداد کو شمار نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں