’فنِ خطاطی کو پاکستان کے تمام اداروں نے نظرانداز کیا ہے‘

شائع June 26, 2023
دینیز بیکتاش کا خطاطی کا ’اجازہ‘
دینیز بیکتاش کا خطاطی کا ’اجازہ‘

رواں سال کے آغاز میں کراچی میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے ترک خطاط دینیز بیکتاش کو اپنے طلبہ کو خطاطی کا فن سکھانے کے لیے مدعو کیا۔ زوم کلاسز میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ بہت سے طلبہ کو خطاطی کی بنیادی چیزیں سکھائیں اور نسخ رسم الخط کی باریکیوں کو پہچاننے میں مدد فراہم کی۔

نسخ، عربی، فارسی اور اردو خطاطی میں استعمال ہونے والے متعدد رسم الخط میں سے ایک ہے۔ اسلامی دنیا کے ہر خطے میں خطاطی کی ایک منفرد قسم ملتی ہے۔ نسخ رسم الخط بنیادی طور پر قرآن شریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور پاکستان میں سندھی زبان لکھنے کے لیے بھی یہ بہت مشہور ہے۔ ایک اور رسم الخط جو پاکستان میں نسخ رسم الخط کے ساتھ مقبول ہے وہ نستعلیق رسم الخط ہے جو اخبارات، نوٹوں اور نصابی کتب میں اردو لکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آٹومن ترک اسکول آف کیلیگرافی سے تعلق رکھنے والی دینیز بیکتاش، عربی اور عثمانی ترک زبان میں خطاطی کرتی ہیں۔

نسخ رسم الخط میں ان کی تحریریں چھوٹی اور مربوط ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ خطاطی کے میدان میں غالب رجحان سے مختلف ہے جہاں بہت سے خطاط ثُلث جیسے رسم الخط کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ دینیز بیکتاش میں ایک منفرد صلاحیت ہے اور وہ یہ کہ وہ دینیز ایک ملی میٹر جتنے چھوٹی نب والے قلم کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے اور صاف خط میں لکھ سکتی ہیں۔

ان کی والدہ کا تعلق نیدرلینڈز جبکہ والد کا تعلق ترکیہ سے ہے۔ ان کی شخصیت میں ان دونوں ثقافتوں کی جھلک ملتی ہے۔ انہوں نے استنبول اور امریکا سے تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ روانی سے ڈچ، ترک اور انگریزی زبان بولتی ہیں۔ آج ترکیہ، امریکا اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے طالب علم موجود ہیں۔

دینیز بیکتاش کہتی ہیں کہ ’استنبول کی بوآزچی یونیورسٹی میں انگریزی پڑھنے کے دوران تعلیم پر میری غیر معمولی توجہ دیکھ کر میری والدہ نے کہا کہ میں تعلیم کے علاوہ کوئی مشغلہ بھی اختیار کروں تاکہ میری صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ میں نے اسلامک الیومینیشن (تذہیب) کی مشق کی، جو کہ پھولوں، پتوں اور جیومیٹری کے نمونوں کو استعمال کرتے ہوئے صفحے کی آرائش کا فن ہے‘۔

اس دوران دینیز نے دیکھا کہ انہیں قلم پر اچھا کنٹرول حاصل ہے اور وہ سجاوٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ جلد ہی قلم پر مہارت سے متعلق ایک فن کو اختیار کرنے والی تھیں۔

امریکا میں اپنی تعلیم کے دوران وہ خطاطی کے مزید نزدیک ہوتی چلی گئیں۔

  استنبول میں ڈینیز بیکتاش اپنے بیٹے کے ساتھ
استنبول میں ڈینیز بیکتاش اپنے بیٹے کے ساتھ

استنبول سے اپنی انڈرگریجویٹ ڈگری مکمل کرنے کے بعد دینیز بیکتاش نے کمیونیکیشن میں ماسٹرز کرنے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا کی کانفرنس میں شرکت کے لیے شکاگو کے دورے کے دوران دینیز کی استاد محمد زکریا سے ملاقات ہوئی جو وہاں اپنی خطاطی کا مظاہرہ کررہے تھے۔

دینیز بیکتاش کو استاد محمد زکریا سے ملنے سے پہلے خطاطی سے خاص لگاؤ نہیں تھا۔

استاد زکریا نے اسلامی خطاطی کو امریکا میں متعارف کروایا تھا۔ استنبول میں خطاطی کے معروف استاد حسن جیلیبی سے تربیت حاصل کرنے والے محمد زکریا 40 سال سے زائد عرصے سے خطاطی کی مشق کررہے ہیں۔ انہوں نے متعدد طلبہ کو تربیت دی ہے، متعدد ایوارڈز جیتے ہیں اور امریکی صدر کے دفتر کی طرف سے شروع کیے گئے منصوبے بھی مکمل کیے ہیں۔ ان منصوبوں میں مشہور ’عید مبارک‘ ڈاک ٹکٹ بھی شامل ہے جوکہ امریکا کی پوسٹل سروس کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ سنہری خطاطی میں عید مبارک کے اس ڈاک ٹکٹ کا امریکا بھر کے مسلمانوں نے خیر مقدم کیا تھا۔

خطاطی کا شوق

شکاگو میں ہونے والی اس ملاقات میں محمد زکریا نے دینیز کو خطاطی سیکھنے کا مشورہ دیا اور یوں وہ ان کے پہلے استاد بن گئے۔

انہوں نے دینیز کو رقاع رسم الخط میں تربیت دی۔ یہ عثمانی دربار میں روزمرہ کے سرکاری دستاویزات لکھنے کے لیے استعمال ہونے والا رسم الخط تھا۔ سجاوٹ کی کمی اور روانی اس کی خصوصیات ہیں۔ طالب علموں کو روایتی طور پر پہلے رقاع کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ انہیں روایتی قلم سے واقفیت حاصل ہوسکے۔

دینیز نے محمد زکریا سے دو سال تک تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ استنبول واپس آئیں اور محمد زکریا کے استاد حسن جیلیبی کے پاس اپنی تربیت کا آغاز کیا۔ دینیز نے حسن جیلیبی کی رہنمائی میں اپنا سفر جاری رکھا۔ استاد جیلیبی خطاطی کی دنیا میں ایک معروف قابلِ احترام شخصیت ہیں۔ انہیں اسلامی فنکاروں کی برادری میں ایک بلند پایہ شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

ایک وقت میں دینیز 4 گھنٹوں تک حسن جیلیبی کے اسٹوڈیو میں گزارتیں جہاں وہ قلم کاٹنے کی مشق کرتیں، استاد سے اپنے کام کی تصحیح کرواتیں اور دوسرے طلبہ کے کام کا مشاہدہ کرتیں۔ اس دوران دینیز کی ملاقات معروف خطاط داؤد بیکتاش سے ہوئی اور دونوں نے 2004ء میں شادی کرلی اس طرح وہ دینیز کے اساتذہ میں سے ایک بن گئے اور یوں دینیز نے مختلف رسم الخط پر عبور حاصل کرنے کا کام جاری رکھا۔

خطاطی شروع کرنے کے 6 سال بعد، حسن جیلیبی نے دینیز بیکتاش کو بتایا کہ اب وہ اجازہ یا ڈپلوما حاصل کرسکتی ہیں۔

ثلث رسم الخط میں سرخی کے ساتھ نسخ میں لکھی گئی ان کی تحریر کی خوبی کی وجہ سے کوئی شک باقی نہیں رہا تھا کہ انہوں نے خطاطی میں اعلیٰ مہارت حاصل کرلی تھی اور ان کے استاد اس بات کا اعتراف کرنے کے لیے تیار تھے۔

یوں دینیز کو آزادانہ طور پر خطاطی کی مشق کرنے، اپنا کام فروخت کرنے اور سکھانے کی اجازت مل گئی۔ خطاطی کے طالب علموں کے لیے اجازہ حاصل کرنا ایک اہم سنگ میل ہے اور ہر کوئی اسے حاصل بھی نہیں کرتا۔ لیکن یہ خطاطی کے سفر کا اختتام نہیں ہے۔ اس فن کو سنوارنے اور بہتر کرنے کی مشق زندگی بھر جاری رہتی ہے۔

آج، دینیز بیکتاش کو خطاطی کے میدان میں خواتین کی جانب سے خاص طورپر سراہا جاتا ہے کیونکہ یہ فن پہلے مردوں کے زیرِ تسلط تھا۔ وہ خطاطی کے مختلف بین الاقوامی میلوں اور مقابلوں میں بہت سے ایوارڈز حاصل کرچکی ہیں۔ ان مقابلوں میں 2007ء میں استنبول میں منعقدہ 7واں بین الاقوامی خطاطی مقابلہ اور 2008ء میں شارجہ میں منعقد ہونے والا خطاطی کا مقابلہ شامل ہیں۔ 2015ء میں قرآن کے کئی صفحات کی خطاطی پر ترکیہ کی مذہبی امور کی وزارت کی جانب سے ان کے فن کا اعتراف کیا گیا تھا۔

پاکستان میں خطاطی کا رجحان

خطاطی کو پاکستان کے ان تمام اداروں نے نظر انداز کیا ہے
خطاطی کو پاکستان کے ان تمام اداروں نے نظر انداز کیا ہے

دینیز بیکتاش کے آئی بی اے کے طلبہ سے ہونے والے رابطے نے کراچی کے نوجوانوں میں خطاطی کے رجحان کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس آن لائن کورس میں جتنے طلبہ کی گنجائش رکھی گئی اتنی تعداد میں طلبہ موجود تھے بلکہ کچھ کو ویٹنگ لسٹ میں بھی رکھا گیا تھا۔ فنی اور ذوق پر مغربی اثرات کی وجہ سے پاکستان میں خطاطی کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ اجازہ کا نظام ختم ہوچکا ہے اور اساتذہ سے تعلق کا احساس باقی نہیں رہا ہے۔ یہاں صرف چند مقامات ایسے ہیں جہاں خطاطی سیکھنے کے خواہشمند داخلہ لے سکتے ہیں۔

ایک فن کے طور پر خطاطی کو پاکستان کے ان تمام اداروں نے نظر انداز کیا ہے جو علم کو محفوظ کرتے ہیں، خواہ وہ میوزیم ہوں یا پھر اسکول۔ یہ اس وقت واضح ہوا جب آئی بی اے کے طلبہ نے دینیز بیکتاش کے سکھائے گئے کورس کو شروع میں ایک ایسا معمولی فن سمجھا جسے یوٹیوب ویڈیوز دیکھ کر سیکھا جاسکتا ہے تاہم دینیز بیکتاش کی تربیتی ورکشاپس کے بعد وہ خطاطی کے فن کی باریکیوں کے معترف ہوگئے۔

ایک طالبِ علم نے بتایا کہ ’میں خطاطی کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتا تھا، اس لیے میں نے تربیت نہ ہونے کے باوجود اعتماد کے ساتھ اپنے مقامی مدرسے میں خطاطی کے استاد کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔ دینیز بیکتاش کے ساتھ یہ کورس کرنے کے بعد، میں اس فن کی باریکیوں کا معترف ہوگیا ہوں‘۔

دینیز بیکتاش کے ساتھ بات چیت کے بعد طلبہ نے مقامی خطاطی کی خوبصورتی کا بھی اعتراف کیا۔ انہوں نے ٹھٹہ کی شاہ جہاں کی پیچیدہ خطاطی کو پڑھنا سیکھا۔ وہ ایک ایسا رسم الخط ہے جوکہ کسی غیر تربیت یافتہ فرد کے لیے سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔

آئی بی اے اور اس جیسی بڑی جامعات کی جانب سے طلبہ کو خطاطی کے کورس کروانے کے ساتھ ساتھ امید کی جارہی ہے کہ پاکستان میں خطاطی کے فن کو فروغ دینے میں گزشتہ دہائی کے دوران جو پیش رفت ہوئی ہے اسے برقرار رکھا جائے گا۔


یہ مضمون 18 جون 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

سحر علی شاہ
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 جولائی 2024
کارٹون : 25 جولائی 2024