لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے حالیہ دورہ چین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جوکہ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ دورہ خوشگوار رہا جبکہ اس دورے میں انٹونی بلنکن نے چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات بھی کی۔

لیکن امریکا اور چین کے تعلقات بہت پیچیدہ ہیں جہاں اگر ایک قدم آگے کی جانب اٹھایا جاتا ہے تو خود بخود دو قدم پیچھے کی جانب بھی اٹھتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ کو ’آمر‘ کے طور پر بیان کرنے پر چین کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا جس نے ان کے اس بیان کو غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز قرار دیا۔ یوں ایک بار پھر دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔

بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا امریکا میں استقبال اور ان کے مشترکہ بیانات اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ امریکا بھارت کو چین مخالف اتحاد میں مضبوط فریق کے طور پر شامل کرنا چاہتا ہے اور اسے چین کو جواب دینے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

دنیا کے لیے ان سب سے زیادہ نتیجہ خیز تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ایک بار پھر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اب پڑے پیمانے پر ایسا مواد دستیاب ہے جو امریکا اور چین کے تصادم اور اس کے مستقبل پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی حالیہ کتابوں میں کِیوَن رُڈ کی ’دی ایوائیڈ ایبل وار‘، رَش دوشی کی ’دی لانگ گیم‘، ڈونگ وانگ اور ٹریوس ٹینر کی ایڈیٹ کردہ ’آوائڈنگ دی تھوسیڈائڈز ٹریپ‘، لیوک پیٹے کی کتاب ’ہاؤ چائنا لوزز، کشور محبوبانی کی ’ہیس چائنا وون؟‘ اور اولیور لیٹون کی کتاب ’چائنا ورسس امریکا: اے وارننگ‘، شامل ہیں۔

اس حوالے سے آرا یقیناً مختلف ہوتی ہیں کہ مقابلے میں غلبہ کسے حاصل رہے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس بات کا اندازہ بار ہا لگایا جاتا رہا ہے کہ کہیں ان دو ممالک کی شدید مقابلہ بازی ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو۔ اس قسم کا کوئی بھی غلط اندازہ خاص طور پر تائیوان اور اس کے اطراف کے علاقوں میں ایسے نتائج کا باعث بن سکتا ہے جوکہ ایشیا اور دیگر خطوں کے بہت سے ممالک کے لیے پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر تصادم سے گریز کیا جائے تب بھی ان کے ہنگامہ خیز تعلقات عالمی معیشت اور دنیا کو غیر مستحکم حالت میں رکھیں گے۔

ایک نئی کتاب اب دنیا کے اہم ترین باہمی تعلقات کے بارے میں جاری مباحث کا حصہ بن چکی ہے، حالانکہ اس کتاب کا کینوس روس تک پھیلا ہوا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل ڈوئل کی کتاب ’کولڈ پیس: اوائڈنگ اے نیو کولڈ وار‘ مشرق اور مغرب کے درمیان تناؤ کا محرک بننے والے بہت سے مسائل کا ایک جامع جائزہ پیش کرتی ہے۔ مصنف نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آیا ایک نئی سرد جنگ کا امکان ہے اور اگر ہے تو یہ ماضی میں ہونے والی سرد جنگ سے کس حد تک مختلف ہوسکتی ہے۔

انہوں نے سرد جنگ کے خطرے کی جانب اشارہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دلیل بھی پیش کی ہے کہ یہ خطرات ناگزیر نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرد جنگ کے بجائے ’سرد امن‘ بھی قائم کیا جاسکتا ہے اگر یہ دو طاقتیں کچھ ایسے سمجھوتے کرلیں جن سے اہم شعبوں میں تعاون حاصل ہوسکتا ہے۔

مائیکل ڈوئل نے گزشتہ اور نئی سرد جنگ کے حالات اور کرداروں کے درمیان جو امتیازی لکیر کھینچی ہے وہ دیکھنے لائق ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اصل سرد جنگ کی طرح ابھرتی ہوئی سرد جنگ، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی سطح پر ایک گہرا تنازع ہے۔ ان میں مماثلتیں بھی ہیں۔ یہ دونوں سرد جنگیں، ’غیر مسلح تنازعات‘ ہیں جن میں دشمنی شامل ہے جو اثر و رسوخ، طاقت اور خوش حالی کے حصول کے لیے مقابلہ بازی سے بالاتر ہیں۔ لیکن وہ تجویز کرتے ہیں کہ پہلی سرد جنگ بنیادی طور پر پراکسی جنگوں، ہتھیاروں کی دوڑ اور جاسوسی کے ذریعے لڑی گئی تھی لیکن دنیا کی موجودہ صورتحال میں متوقع سرد جنگ، سائبر جاسوسی، تکنیکی اور صنعتی مقابلہ بازی، سیاسی مداخلت اور ہتھیاروں کی دوڑ کا مجموعہ ہوگی۔

مائیکل ڈوئل کو یقین ہے کہ نئی سرد جنگ اتنی وسیع، اشتعال انگیز اور تقسیم کرنے والی نہیں ہوگی جتنی پہلی سرد جنگ تھی۔ اس کے اثرات ابھی تک عالمی سطح پر نہیں پہنچے اور ابھی ’طرفین بھی بہت زیادہ واضح نہیں ہیں‘ کیونکہ ابھی ممالک کے مضبوط اتحاد تشکیل نہیں پائے اور نہ ہی نظریاتی طور پر ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ تاہم ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ سائبر ٹیکنالوجیز کو بطور ہتھیار استعمال کرنا اس تصادم کو جان لیوا بنا رہا ہے۔

مائیکل ڈوئل 3 وجوہات بیان کرتے ہیں جن کی بنیاد پر متوقع سرد جنگ بلاشبہ خطرناک تو ہوگی لیکن یہ پہلی سرد جنگ جیسی نہیں ہوگی۔ ان مں سے ایک وجہ امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کے ممکنہ اخراجات ہیں۔ دوسری وجہ ایک دوسرے پر منحصر خوشحالی اور کرہِ ارض کو ماحولیاتی انحطاط سے بچانے کے لیے مشترکہ عالمی دلچسپی ہے جبکہ تیسری وجہ یہ ہے کہ مائیکل ڈائل چین اور روس کے نظام حکومت کو آمرانہ تو سمجھتے ہیں لیکن انانیت پر مبنی نہیں۔

کتاب کا مرکز ی نقطہ یہ ہے کہ دوسری سرد جنگ کو کیسے روکا جائے۔ مائیکل ڈوئل اس کے خاتمے کے لیے 4 عناصر کو اہم سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلی چیز موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی کے مشترکہ چیلنج پر امریکا اور چین کا تعاون ہے جبکہ دوسرا روس اور یوکرین تنازعے کا مذاکرات کی صورت میں حل تلاش کرنا ہے۔ وہ اس حوالے سے کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں جن میں سے کچھ قابل عمل ہیں جبکہ کچھ غیر حقیقی ہیں۔

ان کے مطابق تیسرا اہم عنصر امریکا اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات ہیں۔ یہاں بھی تائیوان پر سمجھوتے کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ سرد جنگ کو روکنے کا چوتھا عنصر نئے سائبر قوانین وضع کرنا ہے۔ وہ مفادات کے تصادم کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائبر ہیکنگ اور جنگ کے نقصان دہ نتائج کو محدود کرنے کے لیے سمجھوتے ممکن ہے۔

مائیکل ڈوئل کے نزدیک ’سرد امن‘ کے حصول کے لیے سفارتی اقدامات میں ’عدم مداخلت کا معاہدہ‘ بھی شامل ہونا چاہیے جو ایک دوسرے کی سیاسی آزادی اور علاقائی سالمیت پر حملہ نہ کرنے کے باہمی وعدوں پر قائم ہو۔ اس میں خفیہ کارروائیوں کو روکنا بھی شامل ہوگا۔ اس کتاب میں دنیا کو مزید انتشار اور عدم استحکام کی طرف دھکیلنے والے بہت سے پریشان کن مسائل کے دلچسپ ’حل‘ پیش کیے گئے ہیں۔ لیکن جیسا کہ دوسروں کا بھی کہنا ہے کہ یہ کتاب ایک نئی سرد جنگ کے محرک کے طور پر مقامی عوامل اور نظریات کے کردار پر زیادہ زور دیتی ہے۔

مائیکل ڈوئل امریکا اور چین کے درمیان بہتر روابط پر بھی بات کرتے ہیں اور ان کے درمیان تصادم کے خطرے کے بارے میں دوسرے مصنفین اور ماہرین کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔ کیون رڈ نے اسے ’منظم اسٹریٹجک تعاون‘ کا معاملہ بنایا، کشور محبوبانی نے دونوں طاقتوں کے لیے اپنے بنیادی مفادات کی بنیاد پر ہم آہنگی تلاش کرنے کے لیے جبکہ اویور لیٹوین نے ’پرامن مسابقت‘ کا مطالبہ کیا۔

اس حوالے سے اہم کتابوں میں سے ایک 2017ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا نام ’ڈیسٹینڈ فار وار: کین امریکا اینڈ چائنا اسکیپ تھوسیڈائڈز ٹریپ؟‘ ہے جو ہارورڈ کے اسکالر گراہم ایلیسن کی تصنیف ہے۔

اس میں انہوں نے قدیم یونانی مورخ تھوسیڈائڈز کے اس مہلک جال کی تصویر کشی کی ہے جو اس وقت ابھرتی ہے جب عظیم طاقتیں ایک دوسرے کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ تھوسیڈائڈز نے جنگ کے ناگزیر ہونے پر زور دیا جب ایک نئی طاقت کے عروج کا خوف پہلے سے موجود قوتوں کے اقدامات کا تعین کرنے لگتا ہے۔

تھوسیڈائڈز کے جال سے بچنے کے لیے گراہم ایلیسن کا مشورہ مائیکل ڈوئل کی کتاب اور ہینری کیسینجر کیےانتباہ میں بھی گونجتا ہے کہ تنازعات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ہینری کیسنجر نے جب یہ کہا کہ دنیا کی تقدیر اس بات پر منحصر ہے کہ آیا امریکا اور چین ساتھ مل سکتے ہیں، تو انہوں نے مبالغہ آرائی ہر گز نہیں کی۔


یہ مضمون 3 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں