پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے بھارت پہلے ہی بہت ناخوش ہے لیکن اب اس کی جلن میں مزید اضافہ ہونے والا ہے کیونکہ چینی اور پاکستانی کمپنی کے درمیان ہائبرڈ مرچوں کی پیداوار کا منصوبہ کامیابی سے شروع ہوچکا ہے۔

کم از کم 6 انچ لمبی، رنگ اور ذائقے میں منفرد خصوصیات کی حامل ان مرچوں کا کامیاب تجربہ سندھ اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں ابتدائی طور پر ساڑھے 700 ایکڑ پر کاشت کرکے کیا گیا ہے۔ جہاں ایک ایکڑ سے مرچوں کی عام فصل کے مقابلے میں 3 گنا زائد یعنیٰ 70 من تک پیداوار حاصل کی گئی ہے۔

بھارت کو مرچیں لگنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق چین ماضی میں بھارت سے سالانہ 60 لاکھ ٹن تک مرچیں حاصل کرتا تھا جس سے اس کو کروڑوں ڈالرز ملتے تھے۔ تاہم دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھنے کے بعد سی پیک کی موجودگی میں چینی کمپنیوں نے پاکستان سے فائدہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور پاکستان سے 5 برسوں کے دوران 75 ملین ڈالرز کی مرچیں برآمد کرنے کامعاہدہ کرلیا ہے۔

چینی اور پاکستانی کمپنی کے درمیان جدید طریقوں سے زراعت کا منصوبہ کامیابی سے شروع ہوچکا ہے—تصویر: لکھاری
چینی اور پاکستانی کمپنی کے درمیان جدید طریقوں سے زراعت کا منصوبہ کامیابی سے شروع ہوچکا ہے—تصویر: لکھاری

ہائبرڈ مرچوں کی پیداوار کہاں کی جائے گی؟

پاکستان میں چاول کے ہائبرڈ بیج متعارف کروانے والی کمپنی گارڈ ایگری کلچر نے چین کی کمپنی کے ساتھ گزشتہ برس ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ اراضی پر موسمی اور دیگر عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرچوں کی 16 مختلف اقسام کاشت کی جائیں گی۔

گارڈ ایگری کلچر کے زرعی ماہر ڈاکٹر عبدالرشید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ آئندہ 5 برسوں میں مرچوں کے اس منصوبے کو پاکستان بھر میں 2 لاکھ ایکڑ تک پھیلایا جائے گا جبکہ چینی کمپنی ملک میں پیدا ہونے والی فصل کا 90 فیصد خرید کر چین برآمد کرے گی جسے وہ گھریلو استعمال کے علاوہ میک اَپ بنانے اور صنعتی رنگ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ چینی کمپنی پاکستان میں ٹیکنالوجی منتقل کرے گی اور یہاں مقامی صنعتی پلانٹس نصب کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں مرچوں کی پیداوار کے لیے سالانہ 2 ارب ڈالرز کے بیچ درآمد کیے جاتے تھے ہائبرڈ مرچوں کے بعد اس میں بہت حد تک کمی آئے گی۔

 پاکستان میں 2 لاکھ ایکڑ اراضی پر مرچوں کی پیداوار کی جائے گی—ویڈیو: لکھاری
پاکستان میں 2 لاکھ ایکڑ اراضی پر مرچوں کی پیداوار کی جائے گی—ویڈیو: لکھاری

لال اور سبز رنگ کی ان مرچوں کا عملی مظاہرہ دکھانے کے لیے ملتان میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں 400 کے لگ بھگ کسانوں نے شرکت کی اور مرچوں کی خصوصیات اور اس کی کاشت کے طریقہ کار سے آگاہی حاصل کی۔ جب تقریب میں موجود ایک جدت پسند کسان سے ہم نے بات کی تو انہوں نے کہا کہ خانیوال میں 20 ایکڑ رقبے پر ہائبرڈ مرچ کاشت کی گئی تھی جس کا خرچہ 30 فیصد تک کم آیا ہے اور پیداوار 70 من فی ایکڑ تک حاصل ہوئی ہے جس کے بعد وہ دیگر کسانوں کو بھی اس جانب راغب کرنے کی کوشش کریں گے۔

  یہ منفرد مرچیں 6 انچ تک لمبی ہیں—تصویر: لکھاری
یہ منفرد مرچیں 6 انچ تک لمبی ہیں—تصویر: لکھاری

ماہرین پراُمید ہیں کہ جہاں سی پیک منصوبہ دیگر شعبوں میں پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا وہیں زراعت میں بھی انقلاب برپا کرے گا پھر چاہے اس سے بھارت کو مرچیں لگیں یا کسی اور مخالف کو۔

کیا پاکستان میں زرعی انقلاب آنے والا ہے؟

’کشکول توڑ کر ملک میں زرعی انقلاب لایا جائے گا‘ اس عزم کا اظہار پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت خانیوال میں آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی ذیلی کمپنی ’فون گرو‘ کی جانب سے 2 ہزار 250 ایکڑ پر شروع کی گئی کارپوریٹ فارمنگ کے ابتدائی مرحلے کے افتتاح پر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انشااللہ پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا، ہم اس ماڈل فارم کی طرز کے جدید فارم بنائیں گے جس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہوگا اور گرین انیشیٹو کا یہ دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلا دیا جائے گا۔

کیا ملک میں زرعی انقلاب آنے والا ہے؟
کیا ملک میں زرعی انقلاب آنے والا ہے؟

جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے، سیکیورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، سیکیورٹی کے بغیر معیشت اور معیشت کے بغیر سیکیورٹی ناممکن ہے۔

خانیوال فارم میں ڈرائیور کے بغیر چلتے ٹریکٹر، آبپاشی کے لیے سینٹر پیوٹ سسٹم اور ڈرونز کے ذریعے فصلوں کی مانیٹرنگ اور ادویات کے اسپرے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان زرعی انقلاب کی جانب گامزن ہے۔

 خانیوال فارم میں ڈرائیور کے بغیر ٹریکٹر چلائے جاتے ہیں—ویڈیو: لکھاری
خانیوال فارم میں ڈرائیور کے بغیر ٹریکٹر چلائے جاتے ہیں—ویڈیو: لکھاری

کارپوریٹ فارمنگ کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

خانیوال کے علاقے پیرووال کی ہزاروں ایکڑ اراضی عسکری ادارے کی ملکیت ہے۔ جہاں چند برس قبل صرف جنگل آباد تھا اب وہاں کپاس، مکئی اور تلوں کی فصل کی کاشت کا آغاز ہوگیا ہے۔ ’فون گرو‘ کی جانب سے صرف 6 ماہ کے عرصے میں نیم آباد اراضی کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قابل کاشت بنا دیا ہے۔

کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر اسلم نے ہمیں بتایا کہ ابھی تو یہ ابتدا ہے جس میں صرف 2 ہزار 250 ایکڑ اراضی کو قابلِ کاشت بنایا گیا ہے جبکہ رواں برس کے آخر تک مزید 2 ہزار 250 ایکڑ اراضی پیداوار کے قابل بن جائے گی۔ تاہم آئندہ 5 برسوں میں پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں ایک لاکھ ایکڑ صحرا و بنجر زمین کو کاشت کے قابل بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

دیگر تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سی پیک کے تحت اس منصوبے سے بھی براہِ راست فائدہ حاصل کیا جائے گا۔ چین کی 8 کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی، وہ ابتدائی طور پر ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور کپاس، سویابین، تلوں کے بیجوں اور ہائبرڈ مرچوں کی پیداوار سمیت گوشت کی پاکستان سے ایکسپورٹ میں دلچسپی کا اظہار کرچکی ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا ایک وفد 15 اگست سے چین کا دورہ بھی کرے گا جہاں چینی ماہرین کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے بھی بات چیت کی جائے گی۔

  پاکستان میں 16 مختلف اقسام کی مرچوں کی کاشت کی جائے گی
پاکستان میں 16 مختلف اقسام کی مرچوں کی کاشت کی جائے گی

آئندہ برس کے آغاز میں چین کی کمپنیاں پاکستان میں ڈیڑھ سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مکمل طور پر خود کار زرعی فارم بنانے کی خواہش مند ہیں جس میں انسانی عمل دخل بالکل کم ہوگا۔ طاہر اسلم کے بقول چھوٹے کسانوں کو بھی اس سے فائدہ ملے گا کیونکہ جو آلات، بیج اور ادویات وہ خود استعمال کریں گے وہ چھوٹے کسانوں کو بھی کم نرخوں اور کرائے پر مہیا کیے جائیں گے تاکہ وہ بھی ان کے شانہ بہ شانہ زرعی پیداوار بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

واٹر منیجمنٹ سے بطور ڈی جی ریٹائرڈ ہونے والے انجینیئر مشاق احمد گل اس وقت ’فون گرو‘ کمپنی میں بھی آب پاشی اور زراعت کے لیے واٹر منیجمنٹ کے ماہر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے بقول روایتی کاشت کاری میں ایک ایکڑ کے درمیان 3 کھالے یا ’واٹر چینلز‘ ہوتے ہیں جہاں مختلف مواقع پر پانی ضائع ہوتا ہے۔

’فون گرو‘ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر اسلم میڈیا سے بات کررہے ہیں
’فون گرو‘ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر اسلم میڈیا سے بات کررہے ہیں

گنے یا چاول کی کاشت کے بارے میں بتایا کہ روایتی طریقہ کاشت کاری میں 4 سے 5 ایکڑ فٹ پانی استعمال ہوتا ہے جبکہ اس منصوبے میں استعمال ہونے والے ’سینٹر پیوٹ واٹر سسٹم‘ سے ایک ایکڑ میں صرف ایک ایکڑ فٹ پانی استعمال ہوگا کیونکہ اس کی پیداواری صلاحیت 95 فیصد ہے۔ جبکہ فصلوں کو کھاد یا ادویات پر اسپرے کے لیے الگ مشینری کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہ عمل بھی اس سسٹم کے تحت سر انجام دیا جاسکے گا۔ ان کے بقول پانی کی بہتر منیجمنٹ سے فی ایکڑ پیداوار میں دگنا اضافہ ممکن ہے۔

کارپوریٹ فارمنگ سے متعلق کسان کیا سوچ رکھتے ہیں؟

پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد کھوکھر نے منصوبے کی حمایت میں کہا کہ ’اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ پاکستان میں اس وقت بھی 15 سے 16 ملین ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے جسے قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ گرین پاکستان منصوبے کے تحت جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس سے پاکستان کو غذائی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

’پوری دنیا میں باڈر سیکیورٹی دوسرے نمبر پر منتقل ہوچکی ہے جبکہ فوڈ سیکیورٹی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں 13 اضلاع، 125 کروڑ آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ وہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 55 من تک ہے لیکن پاکستان میں ٹیکنالوجی کی کمی، بہتر بیج کی عدم دستیابی کے علاوہ دیگر عوامل کے باعث اوسط پیداوار 35 من فی ایکڑ تک محدود ہے۔

’1960ء میں پاکستان میں بھی زرعی انقلاب آیا تھا۔ ’فون گرو‘ جو اب کرنے جارہا ہے اس سے ایک بار پھر جدید زرعی انقلاب آئے گا۔ چھوٹے کسان اس ٹیکنالوجی سے متاثر ہوں گے جبکہ میں انہیں مشہورہ دوں گا کہ ایک یونین کونسل یا ضلعی سطح پر گروپس تشکیل دیں کیونکہ وہ باہمی اشتراک سے جدید مشینری کا حصول آسان بنا سکتے ہیں۔ ریاست پاکستان اور حکومت نے زرعی انقلاب لانے کا جو عزم ظاہر کیا ہے اس سے مزید بہتری آئے گی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں