فاطمہ بی بی اور فضل نعیم اسلام آباد میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکا کی جانب سے افغان جیل میں قید کیے گئے ان کے رشتے داروں کی تصاویر کے ساتھ۔ فوٹو اے پی

اسلام آباد: پاکستان کے ایک لیگل ایڈ گروپ نے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر ہونے والے مذاکرات میں تعطل کے باعث خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کی جیل میں امریکا کی زیر حراست پاکستانی قیدیوں کی غیر معینہ مدت تک حراست کا خدشہ ہے۔

ان قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے گروپ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کا کہنا ہے کہ بگرام جیل کے نام سے مشہور پروان قید خانے میں قید ساٹھ غیر ملکیوں میں سے چالیس پاکستانی نژاد ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر کو امریکی فوج نے افغانستان پر حملے کے بعد گرفتار کیا تھا۔

بگرام جیل کو کیوبا کی گونتا ناموبے جیل سے موازنہ کیا جاتا ہے۔

گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان قیدیوں پر مذاکرات میں تعطلی کی وجہ ان کا دوبارہ دہشت گردی کی جانب لوٹ جان یا پھر اپنے وطن میں غیر انسانی سلوک کا خدشہ ہے۔

گروپ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ آئندہ سال افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا سے قبل بغیر الزامات کے بند ان قیدیوں کی رہائی کیلیے دباؤ بڑھائے۔

بگرام جیل میں بند ان مشتبہ شدت پسندوں میں سعودی اور کویتی باشندے بھی شامل ہیں جو اب بھی امریکی فوج کے زیر نگرانی ہیں۔

خیال رہے کہ واشنگٹن مارچ میں تین ہزار سے زائد قیدیوں پر مشتمل بگرام جیل کی ذمے داریاں افغان حکام کے حوالے چکا ہے۔

پاکستانی وکیل سارا بلال نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ افغانستان حکومت نے اپنے تین ہزار قیدی امریکا سے واپس لے لیے، ہم اپنے چالیس افراد کے لیے یہی کام کیوں نہیں کر سکتے؟

اس مسئلے کو پاکستان میں کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی لیکن گروپ کو امید ہے کہ مئی میں منتخب شدہ نئی پاکستانی حکومت اس معاملے کو اٹھائے گی۔

سارا نے کہا 'ہم چاہتے ہیں نئی حکومت اس معاملے کا نوٹس لے ۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قیدیوں کی رہائی کے لیے امریکا سے لڑے'۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس پراجیکٹ پاکستان نے امریکی اور پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ 2014 کے اختتام سے قبل ان قیدیوں کی رہائی کے لیے مل کر اقدامات کریں۔

پچاس صفحوں پر مشتمل 'کلوسنگ بگرام، انیتھر گوانتاناموبے' نامی اس رپورٹ میں قیدیوں کی رہائی کے اقدامات میں تیزی لانے کے لیے مرحلہ وار اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔

خطرناک قرار دیے گئے ان قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں امریکا کو بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ ان لوگوں کو بغیر کسی ٹرائل کے کچھ مقدمات میں جیل بھیج دیا گیا تھا، جس کے باعث مسلم دنیا میں امریکا مخالف جذبات کو مزید ہوا ملی تھی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں