برکس اجلاس: رکن ممالک دنیا کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کیلئے پُرامید

اپ ڈیٹ 21 اگست 2023
برکس کا 3 روزہ سربراہی اجلاس کل سے شروع ہوگا—فوٹو: اے ایف پی
برکس کا 3 روزہ سربراہی اجلاس کل سے شروع ہوگا—فوٹو: اے ایف پی

عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی معیشتوں اور دنیا کی دولت کا تقریباً ایک چوتھائی حصے کا مالک سمجھے جانے والے عالمی بلاک ’برکس‘ کے رہنما رواں ہفتے جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں اس بلاک کے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور دنیا کی جغرافیائی سیاست میں تبدیلی لانے پر زور دینے کے لیے ملاقات کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کل (منگل) سے شروع ہونے والے سالانہ 3 روزہ سربراہی اجلاس میں جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا کی جانب سے چین کے صدر شی جن پنگ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا کی میزبانی متوقع ہے، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن بھی اس اجلاس میں آن لائن شرکت کریں گے۔

پیوٹن نے ذاتی طور پر اس اجلاس شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جنگی جرائم کے الزام میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں اور ان کی آمد کی صورت میں جنوبی افریقہ بظاہر اس پر عملدرآمد کا پابند ہوگا، لہٰذا ان کی جگہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اجلاس میں شرکت کے کے لیے جوہانسبرگ جائیں گے۔

پریٹوریا میں چین کے سفیر چِن ژیاؤڈونگ نے ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ روایتی عالمی گورننگ سسٹم غیر فعال، کمزور اور عملاً غیرمؤثر ہو گیا ہے، برکس عالمی انصاف کے دفاع کے لیے تیزی سے ایک مضبوط قوت بن رہا ہے۔

تقریباً 40 ممالک نے اس بلاک میں شمولیت میں دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ ان میں سے 23 ممالک نے برکس کے رکن بننے کے لیے باضابطہ طور پر درخواستیں جمع کرائی ہیں، 2009 میں یہ بلاک باضابطہ طور پر لانچ کیا گیا تھا، اب یہ عالمی جی ڈی پی کے 23 فیصد اور دنیا کی آبادی کے 42 فیصد پر مشتمل ہے۔

ایشیا اور برکس کے لیے جنوبی افریقہ کے سفیر انیل سوکلال نے کہا کہ کئی ممالک کی جانب سے اس بلاک میں شامل ہونے کے لیے دلچسپی ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ بہت زیادہ پولرائزڈ ہے، جو روس-یوکرین بحران کی وجہ سے مزید پولرائز ہوئی ہے اور جہاں تمام ممالک کو فریق بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوب میں واقع ممالک نہیں چاہتے کہ انہیں بتایا جائے کہ کس کی حمایت کرنی ہے، کیسے برتاؤ کرنا ہے اور اپنے خودمختار معاملات کو کیسے چلانا ہے، وہ اب اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے لیے کافی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔

لیمپوپو یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے لیکچرار لیبوگانگ لیگوڈی نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اس بلاک میں شامل ہونے کی خواہشمند بہت سی ریاستیں برکس کو عالمی معاملات میں موجودہ بالادستی کے متبادل کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

اس اجلاس کے دوران تقریباً 50 دیگر رہنما ’فرینڈز آف برکس‘ پروگرام میں شرکت کریں گے، رواں برس اس اجلاس کا موضوع ’برکس اور افریقہ: باہمی تیز رفتار و پائیدار ترقی اور جامع کثیرالجہتی کے لیے شراکت‘ ہے۔

ساؤتھ افریقہ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں افریقہ-روس افریقہ پروجیکٹ کے اسٹیون گرزڈ نے اس اجلاس کو ’ایک اہم موڑ‘ قرار دیا ہے۔

انیل سوکلال سوکلال کے مطابق برکس کے اراکین میں اضافے کا فیصلہ اجلاس کے اختتام پر متوقع ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں