Dawnnews Television Logo

کیبل کار حادثہ: پاکستان میں اسکول تک رسائی کے بحران کا منہ بولتا ثبوت

خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں کیبل کار حادثے کے بعد طلبہ پریشان ہیں کہ آخر وہ روزانہ کلاس کے لیے مشکل سفر کیسے طے کریں گے۔
اپ ڈیٹ 27 اگست 2023 05:36pm

رواں ہفتے خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں دریا کے اوپر سینکڑوں فٹ بلندی پر کیبل کار میں تقریباً 16 گھنٹے تک پھنسے رہنے کے بعد زندہ بچنے پر ابرار احمد راحت محسوس کر رہے ہیں لیکن طلبہ پریشان ہیں کہ آخر وہ روزانہ کلاس کے لیے مشکل سفر کیسے طے کریں گے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ابرار احمد نے کہا کہ ان شاءاللہ، میں اپنی پڑھائی جاری رکھوں گا لیکن ہمارے اسکول کا راستہ بہت طویل ہے۔

بٹنگی پشتو گورنمنٹ ہائی اسکول میں اپنے میٹرک کے پہلے سال کی تعلیم حاصل کرنے والے ابرار احمد نے کہا کہ کبھی کبھی مجھے اسکول کے لیے دیر ہو جاتی ہے کیونکہ یہ صبح ساڑھے 8 بجے کھلتا ہے اور سڑک بہت خطرناک ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ چیئر لفٹ ضروری ہے لیکن اب ہم اس سے خوفزدہ ہیں۔

اسلام آباد کے شمال میں پہاڑی ضلع بٹگرام میں 183 میٹر(600 فٹ) بلندی پر ایک کیبل ٹوٹنے کے بعد فوج اور عام شہریوں کی مشترکہ کاوشوں سے سات بچوں اور ایک استاد کو بچا لیا گیا تھا۔

یہ صورتحال ملک میں بہت سے لوگوں کے لیے اسکول تک رسائی کا بحران آشکار کرتی ہے جہاں چند ہی ہائی اسکول ہیں لیکن خراب سڑکوں، غربت اور سخت موسمی حالات طلبہ کی کلاس تک رسائی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان میں اسکول میں حاضری کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے، سرکاری اعداد و شمار اور ورلڈ بینک کے مطابق، 4 سے 16 سال کی عمر کے مقامی بچوں میں سے تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ یا 44 فیصد اسکول نہیں جاتے جبکہ لڑکیوں کے لیے صورت حال مزید ابتر ہے۔

تجزیہ کاروں اور ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کی بڑی آبادی کو معاشی استحکام اور جنوبی ایشیائی ملک کو درپیش سیکیورٹی خدشات کم کرنے کے لیے تعلیم کی شرح بڑھانا ناگزیر ہے۔

یونیسیف پاکستان میں تعلیم کی سربراہ ایلن وان کالمتھاؤٹ نے کہا کہ لمبی مسافتیں اور سفر کے اوقات، نقل و حمل کے چند اختیارات اور اخراجات تعلیم تک رسائی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں بالخصوص لڑکیوں کے لیے بڑی رکاوٹ ہیں جنہیں اکثر اکیلے طویل فاصلے تک سفر کی اجازت نہیں ہوتی۔

احمد چاہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے قریب مناسب سڑک اور ہائی اسکول بنایا جائے۔

بٹنگی پشتو ہائی اسکول کے ہیڈ ٹیچر علی اصغر خان طویل سفر کو اسکول چھوڑنے کی بلند شرح کی اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔

اصغر خان نے کہا کہ دور دراز کے دیہاتوں سے آنے والے زیادہ تر لڑکے تعلیم جاری رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں اکثر سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا تو وہ بہت چھوٹے ہیں یا مضبوط نہیں یا بیمار ہیں، اس لیے وہ اپنی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں تعلیم چھوڑنے والوں کا تناسب زیادہ ہے، بہت سے طالب علموں کو ناقص پگڈنڈیوں پر تین گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے اور بارش کے موسم میں خطرناک ندی نالے عبور کرنا پڑتے ہیں۔

جو لوگ اسے بناتے ہیں وہ اکثر شمالی پاکستان کی گرمیوں اور خون جما دینے والی سردیوں کے دوران سفر سے تھک جاتے ہیں اور تھکے اور بھوکے ہونے کی وجہ سے انہیں توجہ سے کام کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

مققامی افراد نے خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلے میں بہت سے کیبل کار سسٹمز تیار کیے ہی، وہ اکثر انتہائی کم کرائے میں سفر کی مدت کو 20 منٹ تک کم کر دیتے ہیں لیکن انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے اور اس مشکل اور خطرناک سفر سے گزرنا پڑتا۔

صوبے کے سابق پولیس انسپکٹر جنرل نعیم خان نے کہا کہ ماضی میں متعدد حادثات رونما ہو چکے ہیں، زیادہ تر مقامی لوگ خود مقامی پولیس کی مدد سے پھنسے ہوئے لوگوں کو بچاتے ہیں۔

منگل کو ریسکیو کی کوششوں میں شامل ایک شہری نے بتایا کہ اس نے ان چھوٹی چیئر لفٹوں پر اس سے قبل بھی کم از کم چھ بار لوگوں کو بچایا ہے۔

قریبی وادی سوات کی پہاڑیوں پر تقریباً 50 لفٹیں موجود ہیں اور رہائشیوں نے کہا کہ یہ کیبل کاریں طالب علموں کے لیے لائف لائن کی مانند ہیں۔

مقامی علاقے کے رہائشی نصر اللہ خان نے کہا کہ دو ماہ قبل کیبل کار کی رسی ٹوٹنے سے ایک خاتون اور اس کا بچہ دریائے سوات میں گر گئے تھے اور ان کی لاشیں برآمد ہونا باقی ہیں۔

مقامی حکام اور ترقیاتی ادارے صوبے کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔

ضلع بٹگرام کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سید حماد حیدر نے کہا کہ ان کے لیے دور دراز علاقوں میں اسکولوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے، لیکن ہماری حکومت نے گزشتہ چند برسوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور جدید آئیڈیاز سامنے لائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریموٹ لرننگ اور بالخصوص کمیونٹی بیسڈ کلاسز ترجیح ہیں جبکہ تمام علاقے کی کیبل کاروں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اور خطرات کی حامل کیبل کاروں کو بند کر دیا جائے گا۔

عالمی بینک 2027 تک صوبے کے دیہی انفرا اسٹرکچر میں 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں تعلیم تک رسائی خاص طور پر مدنظر رکھی جائے گی۔

عالمی بینک کے ترجمان نے کہا کہ ان چیلنجز میں خاص طور پر لڑکیوں کے لیے مڈل اور ہائی اسکولوں کی کمی اور ہر موسم میں اچھی سڑکوں کا فقدان ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات کا شکار ہو کر خطرات کا سبب بن رہی ہیں۔

اسکول جانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے بٹگرام جیسے علاقوں کے طلبہ جلدی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

کیبل کار حادثے میں پھنسنے والے ایک اور طالب علم رضوان اللہ نے کہا کہ اب ہم لفٹ سے نہیں جائیں گے لیکن میں اسکول بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں سڑکیں ہوں، ہم ایک پُل چاہتے ہیں، ہمارے علاقے میں ہائی اسکول بنایا جائے اور تمام سہولیات فراہم کی جائیں، یہی ہمارا مطالبہ ہے۔