پاکستان اور افغانستان کے مابین کرکٹ میچ گزشتہ کچھ سالوں سے انڈیا پاکستان میچز سے بھی زیادہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ شدت بھی اختیار کرتے جارہے ہیں۔ کبھی میدان میں کھلاڑیوں کی کشمکش کھیل سے آگے بڑھ جاتی ہے تو کبھی اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں کے درمیان جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔

پچھلے سال ایشیا کپ میں اہم موقع پر آصف علی کی وکٹ نے دونوں ٹیموں کے درمیان جذبات کو ابھارا تھا تو حالیہ سیریز کے دوسرے میچ میں شاداب خان کی وکٹ گرنے کے بعد میچ کے اختتام پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو دیکھ کر لگا کہ سب اچھا نہیں ہے۔

دونوں ٹیموں کے درمیان رینکنگ میں موجود فرق سے لگتا تو یہی ہے کہ پاکستان کو زیادہ تر میچز آرام سے جیت جانے چاہئیں لیکن پاکستان کے خلاف میچز میں افغان کھلاڑیوں کے اندر الگ ہی جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ختم ہونے والی حالیہ سیریز بھی اسی دلچسپی اور اسی شدت کے ساتھ کھیلی گئی۔

اگر اسکور کارڈ کو دیکھیں تو صرف دوسرے میچ میں مقابلہ آخری اوور تک گیا لیکن پہلے میچ میں ایک بڑے مارجن سے شکست کے علاوہ باقی دونوں ون ڈے میچز میں افغان باؤلرز کی کارکردگی بہت عمدہ رہی۔ دوسرے ون ڈے میچ میں تو افغان ٹیم جیت کے بہت پاس آگئی تھی لیکن ایک بار پھر نسیم شاہ فتح کو افغانستان سے چھین کر لے گئے۔

تنازعات

اس سیریز کے دوسرے میچ میں ایک اہم واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی ٹیم کو آخری اوور میں 11 رنز کی ضرورت تھی، شاداب خان کے ساتھ نسیم شاہ کریز پر موجود تھے۔ شاداب خان ایک شاندار باری کھیل رہے تھے اور آخری اوور کی پہلی گیند پر نان اسٹرائیکر اینڈ پر موجود تھے۔ اوور کی پہلی گیند پر فضلِ حق فاروقی کے گیند پھینکنے سے پہلے ہی شاداب خان نے کریز چھوڑ دی اور فضل حق فاروقی نے گیند وکٹوں میں مار کر انہیں آؤٹ کر دیا۔

شاداب خان تو آؤٹ ہو کر واپس چل دیے، نسیم شاہ اور حارث رؤف نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور میچ میں پاکستان کو فتح دلوا دی لیکن اس کے بعد سوشل میڈیا پر شاداب کی وکٹ کو لے کر جو بحث شروع ہوئی وہ اب تک جاری ہے۔ کسی کے خیال میں اس طرح آؤٹ کرنا اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف ہے تو کسی کے خیال میں بیٹسمین کا پہلے کریز چھوڑنا اسپورٹس مین اسپرٹ کی خلاف ورزی ہے۔

عامر سہیل یہ نکتہ سامنے لائے کہ اننگ کے ابتدائی اوورز میں کوئی باؤلر مینکڈ کیوں نہیں کرتا تو کچھ لوگوں کا سوال تھا کہ کیا بیٹسمین اننگ کے ابتدائی اوورز میں کریز سے اس طرح باہر نکلتے ہیں جیسے میچ کے اختتامی اوورز میں؟

غرض جتنے منہ اتنی باتیں، اور ہر بات کے جواب میں کئی باتیں۔ مستقبل میں ایسی وکٹ گرنے کے بعد ایسی بحث نہ ہو، اس کے لیے یا تو آئی سی سی کو مینکڈ کو آوٹ کرنے کے طریقوں سے ہی نکال دینا چاہیے یا اسے بھی رن آؤٹ ہی شمار کیا جائے تو شائقین کرکٹ اور کھلاڑی اسے بھی وکٹ حاصل کرنے اور گنوانے کا ایک عام طریقہ سمجھیں۔

اس واقعے سے ایک گیند پہلے، انچاسویں اوور کی آخری گیند پر شاداب خان نے اسکوائر لیگ پر چھکا لگایا اور ساتھ ہی لیگ امپائر سے نوبال کی ڈیمانڈ کر دی۔ شاداب کے خیال میں افغان باؤلر عبد الرحمٰن کی پھینکی فل ٹاس اتنی اونچی تھی کہ اسے نو بال قرار دیا جاتا پر لیگ امپائر کی سوچ کچھ الگ تھی۔ یہاں پر ایک اور بحث شروع ہوتی ہے کہ کیا ایسے مواقع پر امپائرز کو یہ فیصلہ تھرڈ امپائر کو ریفر نہیں کرنا چاہیے تھا؟

اکثر دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی واضح طور پر کریز سے باہر ہوتا ہے لیکن فیلڈ امپائر اسے رن آؤٹ دینے کے بجائے تھرڈ امپائر کو ریفر ضرور کرتے ہیں تاکہ حتمی طور پر درست فیصلہ کیا جا سکے۔ اسی طرح ایل بی ڈبلیو کے فیصلوں میں پہلے ری پلے میں واضح لگ رہا ہوتا ہے کہ گیند وکٹوں سے باہر جا رہی ہے لیکن تھرڈ امپائر فیصلے سے قبل تمام پروٹوکولز پر چلتا ہے، تبھی فیصلہ کرتا ہے اور اس دوران کافی وقت لگ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسے ہر موقع پر تھرڈ امپائر اتنا وقت ضائع کرسکتا ہے تو کبھی کبھار کھلاڑیوں کے کہنے پر نو بال چیک کرنے میں کیا حرج ہے؟

او ڈی آئی رینکنگ میں پہلی پوزیشن

اس سیریز میں کلین سویپ کے ساتھ پاکستانی ٹیم نے ون ڈے کرکٹ میں ایک بار پھر سے نمبر ون پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ ون ڈے کرکٹ ٹیم رینکنگ میں تو جیسے اس سال نمبر ون پوزیشن پر میوزیکل چیئر کا کھیل جاری ہے۔ کوئی بھی ٹیم زیادہ عرصے تک اس پوزیشن کو برقرار نہیں رکھ پائی۔ امید ہے کہ پاکستانی ٹیم اس بار اس پوزیشن پر لمبے عرصے تک براجمان رہے گی پر اس کے لیے ایشیا کپ اور ورلڈکپ میں اچھے نتائج کی ضرورت ہے۔

دونوں ٹیموں کے لیے اس سیریز کا بڑا مقصد ایشیا کپ اور پھر ورلڈکپ کی تیاری تھا اور دونوں ٹیموں نے کافی حد تک یہ مقصد حاصل کر لیا ہے۔ دونوں ٹیموں کی منیجمنٹ کو اس سیریز کے بعد اندازہ ہو گیا ہو گا کہ انہیں ایشیا کپ کے پہلے میچ میں کن گیارہ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترنا ہے۔ ساتھ ہی مختلف طرح کے باؤلنگ اٹیکس کے خلاف حکمت عملی بھی بنالی ہوگی۔

پاکستانی بیٹسمینوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ انہیں اسپنرز پر بہتر کھیل کی ضرورت ہے تو دوسری جانب افغان بیٹسمینوں کو بھی اندازہ ہوگیا ہو گا کہ بہتر فاسٹ باؤلرز کے خلاف کریز پر کس طرح وقت گزارنا ہے۔ دونوں ٹیموں کے باؤلنگ اٹیکس کو بھی اپنی اس کمزوری کا احساس ہوگیا ہوگا کہ ٹیل اینڈرز انہیں مشکلات کا شکار کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں