ہم 25 کروڑ پاکستانی مقروض، معاشی بےحالی کا شکار، خودمختار ہونے کے باوجود اقتصادی طور پر محتاج، معاشی قید میں ابتلا کی زندگی گزارنے والے مزاروں پر جاکر رقص کرکے اس کو مذہبی رسومات کا درجہ دینے والے ضعیف الاعتقاد، دھاگوں پر گراہ لگاکر منت مانگ کر تصور کرتے ہیں کہ ہماری مراد پوری ہوجائے، کبھی ہوجاتی ہے اور اکثر نہیں۔ لیکن امید لگانے کو دل چاہتا ہے، امید ہی تو ہوتی جو زندگی کی رمق کو برقرار رکھتی ہے۔

جب آس ٹوٹ جائے تو مایوسی اور غیر یقینی کیفیت کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ ہمت والے پھر کمر کس لیتے ہیں، بے صبری کا شکار مزید مایوس ہوکر خودکشی کا سہارا لیتے ہیں، اگر ایسا ہو تو پھر بغاوت خواہ کسی بھی سطح پر ہو، اس کو اپنا نصیب اور نصب العین تصور کرلیتے ہیں۔

معاشرے میں انحطاط کی سطح کا اب تعین بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر کوئی کسی نہ کسی سطح پر انحطاط کا شکار ہے۔ سماجی انحطاط، ذہنی انحطاط، اخلاقی انحطاط۔۔۔ کس کس بات کا ذکر کیا جائے۔ آخر اس انحطاط کی وجہ کیا ہے؟ بہت سی ہوں گی مگر انصاف کی عدم فراہمی سب سے بڑی وجہ قرار دی جاسکتی ہے۔

یہ بات تو ہر لحاظ سے درست ہے کہ ہماری عدلیہ کی عزت و تکریم ویسی نہیں ہے جیسے ہونی چاہیے۔ جسٹس منیر سے لے کر عمر عطا بندیال تک مصلحت، نظریہ ضرورت، دباؤ، ذاتی دلچسپی، اعلیٰ ترین ملکی مفاد۔۔۔ غرض فیصلوں میں سب ہی عوامل شامل رہے۔ شاید چند مثالیں ایسی مل جائیں جن میں عدالتوں نے فیصلے حق، سچ، قانون اور آئین کے تحت انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر کیے ہوں۔ لیکن ان فیصلوں کی تلاش میں یہ بھی حاصل مطالعہ ہوسکتا ہے کہ ججوں کی تعیناتی کس بنیاد پر کی گئی تھی۔

ہم نے تو وسیع تر مفاد اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی خاطر افتخار چوہدری کی دھمکی پر آئینی ترمیم بھی کردی تھی تاکہ ججوں کی تعیناتی ان ہی کی مرضی سے ہوجایا کرے۔ آئینی طور پر جو بھی طریقہ ہے سابق وزیر قانون بہتر بتاسکتے ہیں کہ میرٹ کی بنیاد کی تھی۔ کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کیا مگر انصاف ضمیر کی بنیاد پر نہیں حقائق کی بنیاد پر ہوا کرتا ہے۔

کالاکوٹ خوف کی علامت کیوں بنا اور وکلا گردی کس بلا کا نام ہے، اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل میرے ایک کلاس فیلو جو اٹارنی جنرل تھے نے دوران گفتگو کہا کہ میرا پیشہ بہت مقدس پیشہ تھا مگر دس سال بعد اس کو شرفا کی اولاد پیشے کے طور پر اختیار کرنے سے گریز کرے گی کیونکہ یہ بھی ایک مافیا بن سکتا ہے۔

زمانہ طالب علمی میں مصر کے ایک مفکر سید قطب شہید کی کتاب اسلام میں عدل اجتماعی پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اب تک ملک کے حالات کے پس منظر کی بدولت اس کتاب کو کئی مرتبہ پڑھنے کا موقع ملا اور ہر بار نئی جہتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ہمارا دین جس کو ہم مکمل ضابطہ حیات کہتے ہیں وہ بار بار ظالم کو روکنے اور مظلوم کی داد رسی اور ساتھ دینے کی تلقین کرتا ہے مگر ہم تو تماش بین کی طرح ظالم کو کبھی ایک شکل اور کبھی دوسری میں دیکھتے ہیں۔ روکنا تو درکنار لبوں سے برا بھی نہیں کہتے اور ظالم کو بار بار موقع دیتے ہیں کہ کوئی کسر بچی ہے تو نکال لو۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم انصاف کرو خواہ تمہارے سامنے تمہارا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو اور فیصلہ کرتے وقت کسی سے دشمنی یا ناراضی کی بنا پر نا انصافی نہ کرو۔ مفہومِ حدیث بھی ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے سب سے قریب اور پسندیدہ وہ ہوں گے جو اپنی مملکت میں عوام کے ساتھ انصاف کیا کرتے تھے اور سب سے زیادہ سزا کے لائق وہ ہوں گے جو ظلم روا رکھتے تھے اور ناانصافی کیا کرتے تھے۔

یہ بات بھی ہماری روایت کا حصہ ہے کہ معاشرے میں خواہ کیسا ہی نظام حکومت ہو خواہ ظلم بھی ہوتا ہو لیکن وہ تب تک قائم رہے گا جب تک وہاں بہتری کے امکانات نظر آرہے ہوں گے اور پھر انصاف کا ہونا بھی شرط ہے۔ وہ معاشرہ تباہ و برباد ہوگا جہاں انصاف نہ ہو خواہ حاکم مسلمان ہی یوں نہ ہوں۔

پاکستان میں انتقامی کارروائی کا شکار تو خود چیف جسٹس بھی بنے رہے اور ان کے ساتھ زیادتی حکومتی اہلکار اور ادارے ہی کرتے رہے۔ اللہ کی شان ہے کہ اس نے انتقامی کارروائی کرنے والوں کو ان کی زندگیوں میں ہی سبق سکھادیا۔ صدر عارف علوی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو برطرف کرنا چاہتے تھے لیکن ان سے عہدے کا حلف لینا پڑگیا۔

عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ عمرانی یا دستور کے تحت حقوق و فرائض طے ہوچکے ہیں۔ ریاست کا ہر فرد اور ریاست اور دستور سے مکمل وفاداری کا پابند ہے اور پوری ریاست انسانی حقوق دینے کی بھی پابند ہے۔ معاہدہ یکطرفہ شرائط کے تحت نہیں ہوتا، یہ معاہدہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہوا تھا۔ گویا ریاست اور عوام دونوں اس میں فریق ہیں۔ عوام ریاست کے وفادار یکطرفہ نہیں ہو سکتے اور ریاست صرف حکم نہیں چلاسکتی بلکہ اس کو حقوق اور سب سے زیادہ انصاف مہیا کرنا ہوتا ہے۔ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں، اگر انصاف ملے گا تو عوام ریاست، حکومت اور قانون کے پابند ہوں گے وگرنہ ان کی زندگی آزاد شہری کی نہیں بلکہ مغوی کی ہوگی۔ آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہم کشمیر کی آزادی کی بات بھی تو اسی پیرائے میں کرتے ہیں۔ اگر کشمیری حق کے لیے اور ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے حقدار ہیں تو ہم اپنی ریاست سے انصاف، تعلیم، صحت، روزگار، عزت نفس اور برابری کیوں نہیں مانگ سکتے؟

یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرے اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ اگر حکومت ناکام ہوتی ہے تو عدلیہ کا کام ہے کہ ہمارے حقوق کی ضمانت اور انصاف دے۔ اگر ایک حد تک ایسا نہ ہو تو عوام کا حق ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کریں خواہ ووٹ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے معروضی حالات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب پر لازم ہے کہ وہ پہلے اپنے گھر گویا سپریم کورٹ کو درست راہ دکھائیں، پھر عوام کی آواز سنیں اور جس طرح خود انصاف کے متلاشی اور حقدار تھے اسی طرح 25 کروڑ عوام کے حقوق اور انصاف کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ساتھ ہی ساتھ حکمرانوں کے احتساب کا بھی مناسب انتظام کروائیں کیونکہ عدم انصاف کی بنا پر ہم اپنی خودمختاری قائم رکھنے میں ناکام ہوں گے۔ تاریخ میں قوموں کی تباہی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور قرآن بھی بیان کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں