مسلسل دو ہفتوں سے سنسنی پھیلانے کے بعد پاکستان میں کرکٹ کے مالکان پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے قوم پر احسان کرتے ہوئے ٹیم کا اعلان کردیا ہے جو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ورلڈکپ کے لیے بھارت میں پاکستان کی نمائندگی کرے گی۔ ویسے پی سی بی کے پاس اب بھی وقت تھا کہ قوم کو مزید انتظار کرواتے کیونکہ آئی سی سی کے قانون کے مطابق 28 ستمبر ٹیم ارکان کے حتمی نام بھیجنے کی آخری تاریخ ہے۔

ورلڈکپ میں شریک ہونے والے دوسرے تمام ممالک اپنی ٹیم کا اعلان ہفتوں قبل کرچکے ہیں اور تمام ٹیمیں بھارت کا رخت سفر بھی باندھ چکی ہیں بس اگر کسی نے ابھی تک اس سفر کی شروعات نہیں کی ہے تو وہ پاکستان ہے جس کے کرکٹ کے ذمہ داران شاید کسی خلائی حکم کے منتظر تھے کہ کب پردہ اٹھایا جائے اور ٹیم ارکان کے اسمائے گرامی آشکار کیے جائیں۔

اس انتظار نے جہاں کچھ لوگوں کے خون کی حدت میں اضافہ کیا تو وہیں کچھ کا کاروبار بھی چلتا رہا کہ کون آئے گا اور کون رہ جائے گا۔ شرط پر شرط نے اس کا مزا دوبالا کردیا۔ ابھی تو شاہ سوار سامان حرب سے آراستہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ میدان جنگ نے میدان نفع کا روپ دھار لیا۔

بڑی تبدیلی نہ بڑا فیصلہ

نہ کوئی بڑی تبدیلی اور نہ ہی کوئی بڑا فیصلہ۔ سب کچھ اسی طرح ہے جیسے گلشن کا کاروبار چل رہا تھا۔ لے دے کر ایک حسن علی واپس آگئے ہیں مگر ان کی جگہ بھی ان کی کوششوں سے نہیں بلکہ نسیم شاہ کی مجروحیت سے بنی ہے۔ یعنی کسی کا چراغ بجھا تو حسن علی کا چراغ جلا۔ اب حسن علی ہتھیلی پر چراغ لے کر کہاں تک روشنی دکھاتے ہیں یہ تو مخالف ہوا بتائے گی لیکن تندیٔ بادِ مخالف میں شدت بھی ہے اور توانائی بھی۔

حسن علی کی باؤلنگ کی رفتار کم ہوچکی ہے—فائل فوٹو
حسن علی کی باؤلنگ کی رفتار کم ہوچکی ہے—فائل فوٹو

پاکستان ٹیم کے اعلان ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی کہ سیلیکٹرز اور ٹیکنیکل کمیٹی میں ٹھن گئی۔ ماضی کے ایک اوپنر اَڑ گئے کہ عماد وسیم ٹیم کا حصہ ہوگا جبکہ کپتان اور سیلیکٹرز نے شاداب خان کے لیے سِپر بنا لی تھی۔ دلیل اور عقلِ جلیل سے عاری بحث میں جیت انہی کی ہوئی جو زمامِ زمانہ ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے جن کے سر پر شکستوں کے باوجود بادشاہت کا تاج ہے، جن کے بَیٹ سے نکلنے والی آواز اور انداز کے بجائے زلف تراشی کی جھلک اور لباس کی زیبائش کی تصویریں خبر بنتی ہیں۔ سب کچھ تو ہوگیا جو وہ چاہتے تھے۔ وہی ٹیم وہی کھلاڑی جس پر وہ مصر بھی تھے اور بر انگیختہ بھی۔

تو کیا اب شکستوں کا بوجھ ہٹ جائے گا؟

یہ وہ سوال ہے جو برسرعام ہے اور ہر ایک جواب کا متلاشی۔ کیا یہ ٹیم کچھ کرپائے گی؟

اگر دوسری ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو دو ٹیموں نے گزشتہ چند ہفتوں میں سارے اندازے پلٹ دیے ہیں۔

بھارتی ٹیم جس نے ایشیا کپ کو رانجی ٹرافی بنادیا تھا پاکستان اور سری لنکا کو اس طرح زِیر کیا کہ ناظرین و حاضرین انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ دوسری ٹیم جنوبی افریقہ ہے جس نے آسٹریلیا جیسی ٹیم کو مزا چکھادیا۔

ان دو ٹیموں کے علاوہ سری لنکا نے جب پاکستان کو شکست دی تو سری لنکا کے گیم پلان پر رشک آنے لگا۔ کس مہارت اور چابک دستی سے پاکستانی باؤلرز کو کھیلا اور کسی بھی لمحے دباؤ نہیں آنے دیا۔

پاکستان جس کی طاقت ہمیشہ باؤلنگ رہی ہے اور ماضی کی ہر بڑی جیت باؤلرز کے مرہون منت رہی ہے لیکن اب وہ ماضی کے برعکس کمزور اور ناتواں لگ رہی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی تو بہت اچھی فارم میں ہیں لیکن نسیم شاہ کی عدم موجودگی ان پر دباؤ بڑھادے گی۔ حارث رؤف ممکنہ طور پر سارے میچ نہیں کھیل سکیں گے ان کی فٹنس عارضی ہے اور ویسے بھی وہ لمبی دوڑ کے گھوڑے نہیں ہیں۔ بھارت کا گرم موسم اور جنوب کی مرطوب ہوا ان کی باؤلنگ کو بہت متاثر کرے گی۔

نسیم شاہ کی عدم موجودگی سے فاسٹ باؤلرز پر دباؤ بڑھے گا
نسیم شاہ کی عدم موجودگی سے فاسٹ باؤلرز پر دباؤ بڑھے گا

بھارت کا گرم موسم باؤلرز کا امتحان

پاکستان کے زیادہ تر میچ جنوبی ہند میں ہیں جہاں سخت گرمی اور مرطوب ہوا ہوتی ہے۔ فاسٹ باؤلرز پریشان رہیں گے حسن علی اگرچہ فٹ ہیں لیکن رفتار کم ہوچکی ہے، وسیم جونیئر اوسط درجے کے باؤلر ہیں وہ بس خانہ پُری کے لیے ہی رہیں گے۔ سب سے اہم کردار شاہین شاہ کا ہوگا مگر اب ان کی باؤلنگ کو سمجھ لیا گیا ہے۔ ورائٹی نہ ہونے کے باعث وہ مشکل میں پڑسکتے ہیں، اسامہ میر ایک شان دار اسپنر ہیں مگر انہیں کم ہی موقع ملے گا۔ شاداب خان آؤٹ آف فارم ہیں، گیند کی گرپ سخت پکڑنے کے باعث گیند شارٹ پچ ہورہی ہے جس سے بلے بازوں کو کوئی پریشانی نہیں ہے، محمد نواز پاکستان کے ٹرمپ کارڈ ہوسکتے ہیں اگر انہیں پچ سے مدد مل گئی۔ وہ گیند کو گرپ بہت اچھا کررہے ہیں۔

فخر کی ناکامیاں، بابر پر مزید بوجھ

بیٹنگ میں فخر زمان کی ناکامیاں اگر بڑھ گئیں تو ٹیم پر بوجھ بن جائیں گے۔ بیٹنگ میں سوائے بابر اعظم کے کوئی اور نظر نہیں آتا جو وقت پڑنے پر بیٹنگ سنبھال لے۔ ایشیا کپ میں موقع تھا کہ سعود شکیل کو استعمال کیا جاتا مگر غلط منصوبہ بندی نے ٹیم کا کمبینیشن نہیں بننے دیا۔ اب ورلڈ کپ میں ان پر دباؤ بڑھ جائے گا۔

اس منظر نامے میں سب سے اہم پاکستان کا گیم پلان ہوگا۔ اگر کپتان اور کوچز کی فوج نے درست گیم پلان نہیں بنایا تو بات ایشیا کپ سے آگے نہیں جائے گی باؤلنگ کوچ مورنی مورکل اپنی ذمہ داری نبھانے میں یکسر ناکام ہیں۔ وہ ابھی تک سمجھ ہی نہیں سکے ہیں کہ فاسٹ باؤلرز کے لیے ایک روزہ میچ میں وکٹ لینا بہت اہم ہوتا ہے وہ باؤلرز کو جارحیت پر آمادہ نہیں کرسکے ہیں۔

ورلڈکپ سب سے بڑا کرکٹ کا معرکہ ہے جس پر چار سال نظریں لگی رہتی ہیں لیکن ہمارا معاملہ الگ ہی ہے۔ ہمیں سات دن پہلے تک یہ تک نہیں پتا تھا کہ کون اس معرکے میں جیت کی جنگ لڑے گا۔ کسے آلات حرب کو صیقل کرنا ہے اور کون دور سے اس جنگ کو دیکھے گا۔

کرکٹ کا کھیل تو اتفاقات کا مجموعہ ہے لیکن منیجمنٹ نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے ارباب اختیار نے اسے بھی اتفاقات کا مجموعہ بنادیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں