فائل فوٹو: ایکس

’کوفیہ‘ اسکارف فلسطینیوں کیلئے مزاحمت کی علامت کیسے بنا؟

1930 کی دہائی کی عرب بغاوت کے دوران سیاہ اور سفید ’کوفیہ‘ فلسطینی قوم پرستی کی علامت بن گیا تھا۔
اپ ڈیٹ 03 نومبر 2023 02:35pm

فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کی علامت کے طور پر پہنا جانے والا سیاہ اور سفید رنگ کے پیٹرن سے بنا اسکارف جسے ’کوفیہ‘ کہا جاتا ہے، فلسطین کی آزادی کی تحریک میں ایک دلچسپ تاریخ رکھتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی ’کوفیہ‘ کی تاریخ کا آغاز ملک کی بیڈوین برادریوں اور مقامی کسانوں سے ہوتا ہے۔

یہ لوگ ’کوفیہ‘ کو صحرا کے سخت موسم سے بچنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

تصویر—حیرباوی ڈاٹ او آر جی، فلسطین میں واقع فیکٹری جو کوفیہ نامی اسکارف بناتی ہے
تصویر—حیرباوی ڈاٹ او آر جی، فلسطین میں واقع فیکٹری جو کوفیہ نامی اسکارف بناتی ہے

ہلکے وزن کی روئی سے تیار کردہ اس اسکارف کا فِش نیٹ پیٹرن فلسطینی ملاحوں اور بحیرہ روم کے درمیان رابطے کی علامت ہے، جبکہ بولڈ لکیریں فلسطین سے گزرنے والے تجارتی راستوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔

زیتون کے پتوں کے نمونے سے بنی لکیریں (پیٹرن) فلسطینیوں کی بہادری اور ان کے عزم کے ساتھ ساتھ فلسطین میں زیتون کے درختوں کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔

کوفیہ کی تاریخی اہمیت

1930 کی دہائی کی عرب بغاوت کے دوران سیاہ اور سفید ’کوفیہ‘ فلسطینی قوم پرستی کی علامت بن گیا تھا۔

فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کے دوران باغیوں اور انقلابیوں نے اپنی شناخت چھپانے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے چہروں پر ’کوفیہ‘ لپیٹ لیا تھا۔

بعدازاں برطانیہ نے اس اسکارف کے پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس کے بعد ملک گیر احتجاج کے دوران فلسطینیوں نے ’کوفیہ‘ پہننا شروع کیا جس سے برطانوی حکام کے لیے باغیوں کی شناخت کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔

1960 کی دہائی کے دوران فلسطینی مزاحمتی تحریک کے آغاز اور فلسطین کے سابق صدر یاسر عرفات کے اپنانے کے ساتھ کوفیہ کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا۔

یاسر عرفات کی جانب سے اسکارف کو پہننے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اسے صرف اپنے کندھوں پر رکھتے اور اپنے سر کے گرد لپیٹ لیتے تھے۔

فلسطینی صدر یاسر عرفات—تصویر: رائٹرز
فلسطینی صدر یاسر عرفات—تصویر: رائٹرز

1970 کی دہائی کے دوران کوفیہ کو اس وقت مزید اہمیت حاصل ہوئی جب ایک انقلابی آزادی پسند اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) کی رکن لیلیٰ خالد نے اسے ہیڈ اسکارف کے طور پر پہنا (یعنی سر کو ڈھانپ کر ) اور فلسطینی خواتین کو بھی اسی طرح پہننے کی ہدایت دی، جس کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی میں مزید اضافہ ہوا۔

اس کے بعد کوفیہ اتحاد کی علامت بن گیا اور جنس، نسل اور عمر سے بالاتر ہوکر تمام لوگ اسے پہننے لگے۔

1987 میں پہلی انتفاضہ تحریک کے دوران اور پھر 2000 میں دوسری انتفاضہ تحریک کے دوران اردن، مصر، لبنان، شام، عراق، تیونس، الجزائر، مراکش اور یمن میں لوگوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اسکارف پہنا تھا۔

یاد رہے کہ انتفاضہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ہلنا جلنا، اس کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کوئی تحریک شروع کرنا، عام طور پر یہ لفظ اسرائیل کے فلسطین پر قبضے اور مزاحمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اب تک دو انتفاضہ تحریک شروع ہوئی ہیں جن میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔

کوفیہ فیشن کیسے بنا؟

کوفیہ اسکارف دنیا بھر میں فلسطینیوں کے لیے شناخت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ اسکارٖف فلسطینیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی وہ خود حفاظت بھی کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل دور کے آغاز کے ساتھ کوفیہ ہزاروں لوگوں تک پہنچ گیا تھا اور بہت سے فیشن برانڈز نے اس کے ڈیزائن کو اپنایا۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ فیشن کے لیے کوفیہ کے ڈیزائن کو تجارت کا حصہ بنانے سے فلسطینیوں کا مقصد اور اس اسکارف کے ذریعے پھیلایا جانے والے پیغام کی اہمیت کمزور پڑرہی ہے۔

فلسطینی فیشن ڈیزائنر عمر جوزف ناصر الخوری نے دی گارڈین کو بتایا کہ کوفیہ منظم نقل مکانی، ماورائے عدالت قتل اور جبر کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیزائنرز کی جانب سے اہمیت کو سمجھے بغیر اسکارف استعمال کرنا غیر ذمہ دارانہ، بے عزتی اور صرف فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے۔

آج کوفیہ فلسطینیوں کے لیے ایک طاقتور علامت ہے جو فلسطینی عوام میں انصاف، آزادی اور خود ارادیت کے لیے جاری جدوجہد کی نمائندگی کرتا ہے۔

فلسطینیوں اور ان کی عالمی شخصیات کی طرف سے پہنا جانے والا یہ مشہور اسکارف ظلم کے خلاف اتحاد اوردفاع کی علامت کے طور پر کام کرتا ہے، اس کی بنیادی اہمیت ثقافتی ورثے کے تحفظ، بیداری اور فلسطینیوں کی شناخت سے جڑی ہے۔

فلسطینی نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید ایک احتجاج میں کوفیہ پہنی ہوئی ہے
فلسطینی نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید ایک احتجاج میں کوفیہ پہنی ہوئی ہے