یہ ایک ایسا طلسم کدہ ہے، جہاں رنگ باتیں کرتے ہیں اور باتیں مہکنے لگتی ہیں۔ عمارت میں داخل ہوں، تو ایک اطمینان بخش گہما گہمی آپ کی منتظر ہے۔ ایک ہل چل ہے، مگر اس کے پیچھے ایک مقصد کارفرما ہے۔

سب کے ہاتھ میں ایک کتابچہ ہے، جس میں عمارت کے مختلف گوشوں میں رونما ہونے والے ایونٹس کی تفصیلات درج ہیں۔ ہر شخص اپنی دلچسپی کے پیش نظر سیشن کا انتخاب کرتا ہے اور اس سمت چل پڑتا ہے۔ میر تقی میر میں دلچسپی ہے، تو آڈیٹوریم ون کا رخ کیجیے، ’غلام باغ‘ کے مصنف مرزا اطہر بیگ کے خیالات جاننے ہیں، تو اِدھر چلے آئیں۔ ادھر لان میں کچھ دیر بعد جشن خسرو بپا ہوگا، جہاں صدارتی ایوارڈ یافتہ قوال ایاز فرید اور ابو محمد پرفارم کریں گے۔ اس دوران وقت میسر آئے، تو کتابوں کے اسٹال کا رخ کیجیے۔ ہر موضوع پر ہزاروں کتابیں آپ کی منتظر ہیں۔ وہیں ایک سمت نوجوان بیٹھے فن پارے بنا رہے ہیں، کچھ دور کوئی گٹار بجا رہا ہے، کوئی گیت گارہا ہے۔ تھک گئے ہیں، تو مٹی کے پیالوں میں چائے نوش فرمائیں۔

شہر قائد کے سینے میں اردو دھڑک رہی ہے۔ یہ آرٹس کونسل آف پاکستان کا ایک منظر ہے۔چار روز تک یہ عمارت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی کہ یہاں سولہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی، جس میں دنیا بھر سے اردو اور علاقائی زبانوں کے ادیب، قلم کار، دانش ور اور فن کاروں نے شرکت کی اور اپنی تخلیقت اور علمیت سے اس کانفرنس کوسماج کے لیے ایک سودمند سرگرمی میں ڈھال دیا۔

تیس نومبر سے تین دسمبر تک جاری رہنے والی عالمی اردو کانفرنس اب سولہ برس کی ہوچکی ہے اور یہ ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ اردو دنیا میں شاید ہی کوئی تقریب، اس پیمانے پر، اس تسلسل کے ساتھ منعقد ہوئی ہو۔ یہ تسلسل اب شہر قائد کی پہچان بن چکا ہے۔ یہ ایک توانا حوالہ ہے۔ اپنے اسی تسلسل کی وجہ سے اسے دیگر ادبی میلوں اور سیمیناروں پر ایک نوع کی برتری حاصل ہے۔

ماضی کے مقابلے میں اِس بار مندوبین اور شرکا، دونوں ہی کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دکھائی دیا۔ کل تک ایک آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے ایونٹس کو اب تین تین اسپاٹ میسر تھے تو سیشنز کی تعداد بڑھ چکی تھی۔

مشاہیر ادب کانفرنس کا بنیادی موضوع تھے۔ کانفرنس کے دوران اردو ناول، افسانے، تنقید اور اردو غزل و نظم کے مشاہیر پر تسلسل سے بات ہوئی۔ ان سیشنز میں ان باکمال فکشن نگاروں اور شعرا کو یاد کیا گیا، جنہوں نے اردو زبان و ادب پر گہرے نقش چھوڑے۔ قرۃ العین حیدر پر بھی بات ہوئی، عبداللہ حسین پر بھی۔ منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی بھی زیر بحث آئے۔ ساتھ ہی فیض، میرا جی، فہمیدہ ریاض پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ مشاہیر ادب پر اظہار کرنے والے مندوبین میں سے بیشتر خود ادبی دنیا کی سیاحت کا وسیع تجربے رکھتے تھے جس سے ان کی رائے میں وزن پیدا ہونا فطری تھا۔ البتہ یہ ضرور محسوس ہوا کہ اُن معزز مقررین کو کچھ اور وقت میسر ہونا چاہے تھا، کیوں کہ مختصر سے دورانیے میں فیض اور منٹو جیسے تخلیق کاروں کےفن سے انصاف کرنا سہل نہیں۔

اردو کانفرنس میں ایک سلسلہ کتابوں کی تقریب رونمائی کا بھی تھا۔ اِس ضمن میں مختلف سیشنز منعقد ہوئے۔تین الگ الگ سیشنز میں مجموعی طور پر 17 کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ کچھ کتابوں پر مکمل سیشن بھی رکھے گئے، جیسے جاوید صدیقی کے خاکوں کا مجموعہ ’اجالے‘، بھارتی صحافی سعید نقوی کے ڈرامے ’مسلمان لاپتا ہوگئے‘ کا ترجمے اور سینیئر صحافی سلیم صافی کی کتاب ’ڈرٹی وار‘۔

اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر زبانوں میں تخلیق ہونے والے عصری اور توانا ادب کی بازگشت بھی سنائی دی۔ پنجابی زبان و ادب کے مشاہیر میں جہاں معروف قلم کاروں پر گفت گو ہوئی، وہیں نیلم احمد بشیر کی کتاب ’مور بلیندا‘ کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ بلوچ زبان و ادب کے مشاہیر کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ سندھی اور سرائیکی کے قد آور ادیب بھی زیر بحث آئے۔ اردو کانفرنس میں دیگر زبانوں کے ادب پر سیشنز ایک مثبت قدم ہے، جو مختلف زبانوں کے قلم کاروں کو قریب لانے میں مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔

ماضی کی طرح اس کانفرنس میں بھی چند حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ اردو کانفرنس میں موضوع اردو زبان و ادب ہی ہونا چاہیے۔یہ اعتراض تکنیکی بنیادوں پر تو درست ہوسکتا ہے، مگر ادب کی آفاقی روح کے منافی محسوس ہوتا ہے۔

کانفرنس کے اہم ترین سیشنز وہ ٹھہرے، جن میں ممتاز قلم کاروں اور ادیبوں سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جیسے مستنصر حسین تارڑ، عارفہ سیدہ زہرہ، مرزا اطہر بیگ اور بشریٰ انصاری سے ملاقات۔ ساتھ ہی نئی نسل کے معروف شاعر، تہذیب حافی کے ساتھ بھی خصوصی سیشن ہوا۔ سب ہی سیشنز کو توجہ اور پذیرائی ملی۔

فکشن کے متوالوں کے لیے البتہ مستنصر حسین تارڑ اور مرزا اطہر بیگ کے سیشنز اہم ٹھہرے۔ گلزار اور انور مقصود کے درمیان ہونے والے آن لائن مکالمے کا سب کو شدت سے انتظار تھا، مگر یہ واقعہ رونما نہیں ہوسکا۔ سیشن نہ ہونے کی وجہ تکنیکی خرابی ہوسکتی ہے، مگر واقفان حال کا مؤقف ہے کہ اس کی وجہ سیاسی تھی۔ یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے فن و ادب کے میدان میں ہمیشہ بھارتی فن کاروں، قلم کاروں کو سراہا گیا، مگر بھارت کی سرکار، بالخصوص بی جے پی کے دور میں فن و ادب کو فروغ دینے کے بجائے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

خیر، ہمارا موضوع عالمی اردو کانفرنس ہے، جس کی وجہ سے چار روز تک آرٹس کونسل اردو دنیا کی توجہ کا محور بنا رہا۔ بہ ظاہر یہ ایک کامیاب ایونٹ تھا جس کے لیے آرٹس کونسل انتظامیہ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ اتنے بڑے پیمانے پر ایونٹ کا انعقاد قابل ستائش ہے۔ بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہتی ہے۔ کانفرنس سے متعلق چند افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پرکچھ اعتراضات بھی کیے گئے۔ اگر تنقید کا مقصد اصلاح ہے، تو یہ ایک سودمند عمل ہے۔ نئے چہروں کی شمولیت، ایک ہی اسپیکر کو مختلف سیشنز میں دہرانے سے اجتناب اور کراچی کی نمائندگی میں اضافہ اچھی تجاویز ہیں۔ البتہ یہاں تنقید برائے تنقید کا چلن عام ہے، جو اکثر لایعنی ثابت ہوتی ہے۔

اصولی بات یہ ہے کہ اس پیمانے پر ہونے والے ایونٹ کی پذیرائی اور ترویج لازم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مختلف شہروں سے آنے والے اہل علم نے اس کانفرنس میں نہ صرف شرکا کو اپنے وسیع تجربے اور مطالعے سے منور کیا، بلکہ خود بھی ایسی روشن یادیں سمیٹیں، جنہیں وہ اپنی اپنی بسیتوں میں لوٹ کر بانٹ سکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں