پاکستان میں مذہبی اقلیتیں آج بھی حقیقی نمائندگی کی منتظر

عام انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کی نمائندگی کیوں ضروری ہے ؟ اس بار الیکشن میں سندھ کی اقلیت برادری کے تحفظات دور ہوں گے یا نہیں؟
اپ ڈیٹ 17 جنوری 2024 07:44am

جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں، ملک بھر میں سیاسی گہما گہمی بھی بڑھتی جارہی ہے، اسی گہما گہمی کے دوران ملک کی مذہبی اقلیتوں کو شکایت ہے کہ انہیں ہر بار کی طرح اس بار بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔

نظر انداز ہونے کا یہ احساس بالخصوص صوبہ سندھ کی اقلیتوں کو ہے، سندھ میں بسنے والے یہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں انتخابی عمل میں مکمل طور پر شامل نہیں کیا جارہا، 3 دہائیوں سے زائد عرصے کے دوران اقلیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اسمبلیوں کی نشستیں جوں کی توں ہیں۔

مذہبی اقلیتوں کے ان تحفظات پر روشنی ڈالنے کے لیے پہلے ہمیں ماضی کے کچھ اعدادوشمار پر نظر ڈالنی ہوگی۔

اس وقت سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم آبادی کے لیے نشستیں مخصوص ہیں جن پر ہر پارلیمانی جماعت ایک تناسب کے ساتھ اقلیتی برادری کے لوگوں کو ایوان میں آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن گزشتہ 21 سال میں جہاں ایوان کی دیگر نشستوں میں اضافہ ہوا وہاں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

1981 کی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی

مائنوریٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل کی رپورٹ میں 1981 کی مردم شماری کے مطابق مسیحی آبادی 13 لاکھ 10ہزار 426 ، ہندوؤں کی آبادی 12 لاکھ 76 ہزار 116، احمدیوں کی آبادی 10 لاکھ 4 ہزار 244، پارسیوں کی آبادی 7 ہزار 7، بدھ مت کے پیروکار 2 ہزار 639، سکھ 2 ہزار 146 اور دیگر مذاہب کی کُل آبادی ایک لاکھ 10 ہزار تھی۔ اسی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 8 کروڑ 14 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 96.68 فیصد تھے۔

2017 کی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی

پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2017 میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار تھی جس میں مسیحی 26 لاکھ 40 ہزار یا 1.27 فیصد، ہندو 36 لاکھ یا 1.73 فیصد، احمدی 19 لاکھ یا 0.09 فیصد، شیڈیولڈ کاسٹ 85 لاکھ یا 0.41 فیصد اور دیگر مذاہب بشمول سکھ، پارسی، بہائی، کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے افراد 4 لاکھ یا 0.02 فیصد تھے۔

  فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

’کیا سیاست دانوں کے منشور میں اقلیتوں کی کوئی جگہ نہیں ہے؟‘

کراچی کے علاقے صدر کے رہائشی 45 سالہ آہن (فرضی نام) نے اس بار الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، ان کی پیدائش اسی علاقے کی ہے، وہ مزدوری کرتے ہیں اور 3 بچوں کے باپ ہیں، ملک میں اقلیتی برادری کے مسائل کو دیکھتے ہوئے انہوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

آہن کا تعلق ہندو برادری سے ہے، مزدوری کرنے کے ساتھ ہی وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پہلی بار ہے کہ انہوں نے الیکشن لڑنےکا فیصلہ کیا لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے انہیں مثبت جواب نہیں ملا کیونکہ وہ مالی طور پر خودمختار نہیں ہیں۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ ’ہمیشہ کی طرح آئندہ انتخابات میں بھی اقلیتوں کو نمائندگی نہیں دی جارہی، ایک دو مخصوص نشستیں تو دے دی جاتی ہیں لیکن جنرل نشست پر الیکشن کے لیے کیوں نہیں کھڑا کرتے؟ کیا سیاست دانوں کے منشور میں ہماری کوئی جگہ نہیں ہے؟‘

انہی مسائل پر ہم اس رپورٹ میں بات کریں گے کہ عام انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کی نمائندگی کیوں ضروری ہے؟ آئندہ آنے والے الیکشن میں سندھ کی اقلیتوں کے تحفظات دور ہوں گے یا نہیں اور سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟

سندھ کی ہندو برادری میں بھی طبقات اور ذات پات کا فرق دیکھا جاتا ہے، اقلیتی برادری کے وہ افراد جو تاجر یا جاگیردار ہوں یا ان کا تعلق اشرافیہ سے ہو (جو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں) انہیں ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو مزدور، کسان یا صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے لوگوں کو ہوتا ہے۔

صوبہ سندھ میں ہندوؤں کی بھیل، کوہلی، میگاوار اور اوڈ، باگڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت انتہائی غریب ہے اور ان میں خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے، انہیں اکثر ’شیڈول کاسٹ‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں ہندوؤں کی اکثریت صوبہ سندھ میں آباد ہے، جن میں سے اکثریت شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھتی ہیں، تاہم ہندو اقلیت کی اسمبلی میں موجودگی 10 فیصد کے قریب ہے، اس کےعلاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر درشن لال، ڈاکٹر رمیش کمار، منگلا شرما سمیت دیگر اراکین کی اکثریت بڑی ذاتوں اور امیر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہے۔

ہم سبھی کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران وہ تاریخی الفاظ یاد ہیں جو انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ تقسیم ہند کے وقت موجودہ پاکستان میں بسنے والے غیرمسلم باشندوں میں بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال تھی، اسی دوران انہوں نے یہ تاریخی الفاظ بیان کیے تھے۔

قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے یا کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے، اس مملکتِ پاکستان میں۔ آپ کا مذہب کیا ہے؟ ذات کیا ہے اس کا حکومت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں‘۔

چنانچہ اس وقت سے اقلیتوں کے ذہنوں میں اُس وقت جو خدشات پیدا ہوئے تھے وہ آج تک ختم نہیں ہو سکے۔

اب ذرا دوبارہ اعدادوشمار پر روشنی ڈالیں تو امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے 10 سال قبل ایک سروے کیا گیا تھا، جس کے مطابق دنیا میں 73 فیصد لوگ ایسے ممالک میں بستے ہیں جہاں ان کا مذہبی گروہ اکثریت میں ہے ان ممالک میں 27 فیصد لوگ مذہبی اقلیت شمار ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 97 فیصد ہندو ان ممالک میں رہتے ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں، 87 فیصد مسیحی دوسرے نمبر پر جبکہ 73 فیصد مسلمان تیسرے نمبر پر ہیں۔

  فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

ہندو برادری کے سب سے بڑے مسائل کیا ہیں؟

پاکستان میں 2009 سے 11 اگست کو قومی سطح پر اقلیتوں کا دن منایا جاتا ہے اور اس دن بڑی تعداد میں اقلیتی برادری کے افراد سڑکوں پر مارچ کرتے ہیں اور اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔

ان کے سب سے بڑے مسائل میں جبری مذہب تبدیلی، ملازمت میں کوٹہ، توہین مذہب، ناخواندگی، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں پر قبضے شامل ہیں۔

اگر ہم مذہبی اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹرز کی بات کریں تو 2018 میں ان کی تعداد تقریباً 36 لاکھ 30 ہزار سے زائد تھی اور 2013 کے عام انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں میں تقریباً 27 لاکھ 70 ہزار سے زائد تھی، اس لحاظ سے پاکستان میں تقریباً 10 لاکھ غیر مسلم ووٹرز کے اندراج سے اقلیتیوں کے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے۔

اگست 2022 کے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق اقلیتی برادری کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریباً 41 لاکھ 12 ہزار 761 ہے۔

اب عام انتخابات 2024 کے لیے کاغذات نامزدگی کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، الیکشن کمیشن نے الیکشن میں حصہ لینے والوں کے اعداد و شمار کی فہرست جاری کی جس کے مطابق جنرل اور مخصوص نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 28 ہزار 626 اُمیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

قومی اسمبلی کی 266 جنرل نشستوں پر 7 ہزار 713 امیدوار جبکہ خواتین اور اقلیتوں کی 70 نشستوں پر 609 امیدواروں کے کاغذات جمع ہوئے۔

اس بار عام انتخابات 2024 میں کسی سیاسی جماعت نے ایک بھی اقلیتی خاتون امیدوار کو جنرل نشست پر ٹکٹ نہیں دیا۔ پاکستان ہندو کونسل کے ممبر اور اقلیت برادری کے حقوق کے سماجی کارکن سورج ہارش کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں زیادہ تر ان امیدواروں کو ٹکٹس دیتی ہیں جو کاروباری یا مالدار شخصیت ہوتے ہیں، ایسے لوگ نچلی سطح سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے مسائل نہیں سمجھ سکتے اور نہ ان کا دھیان ہمارے مسائل کی طرف جاتا ہے کیونکہ وہ ان کے ووٹ سے منتخب نہیں ہوتے۔

’اقلیتوں کے لیے بہتر کیا؟‘

پاکستان کی اقلیتوں کا خیال ہے کہ ان کے لیے جداگانہ انتخابات کے بجائے مشترکہ انتخابات زیادہ بہتر ہیں۔

مذہبی اقلیتوں کے سماجی کارکن روز مہتانی کا کہنا ہے کہ مذہبی اقلیتی برادری نشستوں میں اضافہ اس لیے چاہتی ہے کیونکہ جب تک اقلیتوں کی نمائندگی ایوان میں نہیں ہوگی تب تک معاشرے میں پھیلے مسائل حل نہیں ہوں گے، ان کا مزید کہنا تھا کہ 2002 سے قبل جداگانہ انتخابات نے اقلیتوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا لیکن 2002 میں مشترکہ انتخابات کے بعد اقلیتوں کے ووٹ کی قدر کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میری ذاتی رائے یہ ہے اور اقلیتی برادری بھی یہی چاہتی ہے کہ مشترکہ انتخابات الیکٹوریٹ زیادہ بہتر ہیں، جداگانہ انتخابات نے ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا اس کی مثال یہ ہے کہ جداگانہ نظام میں ہم اپنے علاقے کے جنرل ایم این اے یا ایم پی اے کو ووٹ نہیں دے سکتے تھے، لیکن جب سے 2002 میں جوائنٹ الیکٹوریٹ آیا تو اقلیتوں کے وٹ کی قدر ہوئی‘۔

یاد رہے کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 30 سال کے بعد مشترکہ انتخابات کا نظام نافذ کیا تھا اور 2002 کے الیکشن اسی کے تحت ہوئے تھے۔

  فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

اقلیتی برادری کیلئے مخصوص نشستیں

دوسری جانب 1997ء میں جب ملک کی آبادی تقریباً 12 کروڑ 90 لاکھ تھی تو قومی اسمبلی کا ایوان 217 نشستوں پر مشتمل تھا جس میں 202 عام نشستیں جب کہ 5 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 10 تھی۔

2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں بڑھا کر 342 کردی گئیں جس میں 272 عام نشستیں تھیں جبکہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کو بڑھا کر 60 کر دیا گیا لیکن اقلیتوں کے لیے نشستوں کی تعداد 10 ہی رہنے دی گئی اور عام انتخابات 2013، 2018 اور اب 2024 میں بھی یہی نشستیں ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق اس وقت قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 اور آرٹیکل 106 کے تحت صوبوں میں 24 سیٹیں مختص ہیں جن میں سندھ میں 9، پنجاب میں 8، بلوچستان میں 3، خیبر پختونخوا میں 4 جبکہ سینیٹ میں 4 سیٹیں مختص ہیں۔

  فوٹو: ڈان نیوز
فوٹو: ڈان نیوز

ماضی میں اقلیتی نشستوں میں اضافے کی کوشش

ہم یہ بات پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ 1985 میں قومی اسمبلی میں 10 نشستیں مختص کیں جس کے بعد سے اب تک ان نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں اس حوالے سے کوشش نہیں کی گئی بلکہ 2013 میں اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں ایک ترمیمی بل پیش کیا تھا جس میں محفوظ نشستوں میں براہ راست الیکشن اور اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ بل قومی اسمبلی میں پانچ بار پیش کیا گیا لیکن منظور نہ ہوسکا۔

ر میش کمار نے مطالبہ کیا تھا کہ اب آبادی کی بنیاد پر اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص کرائی جائیں اور اقلیتی عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ براہ راست اپنے ووٹ سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں۔

اس کے علاوہ 2008 کے دوران پیپلزپارٹی کے دور میں 18ویں ترمیم کی وجہ سے سینیٹ میں ہر صوبے سے ایک ایک نشست اقلیتوں کے لیے مختص کر دی گئی تھی۔

’اقلیتی آبادی کے ساتھ انصاف کیا جائے‘

نگر پارکر کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی نو منتخب سینیٹر کرشنا کماری ہندو دلت برادری سے تعلق رکھنے والی پہلی سینیٹر تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کرشنا کماری کو 2018 میں سندھ سے جنرل نشست کا امیدوار نامزد کیا تھا۔

انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ باقی تمام پارلیمنٹ کی سیٹیں بڑھ سکتی ہیں تو اقلیتوں کی نشستوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے، ان کی آبادی کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہیے، سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی میں دو، دو نشستوں کا مزید اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ خود جنرل سیٹ سے منتخب ہوکر آئی ہیں، اقلیتیوں کو نمائندگی ملے گی تب ہی ان کے مسائل حل ہوسکیں گے۔ پارٹی کی جانب سے ہمیشہ امیر خاندان سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے کے سوال پر کرشنا کماری نے یہ کہا کہ انہیں شیڈول کاسٹ کا لفظ سخت ناپسند ہے، ’ایک طرف آپ ان کی برابری کی بات کررہے ہیں اور دوسری طرف آپ انہیں نیچا دکھا کر ایک ڈبے میں بند کررہے ہیں، ہر اقلیت برابر کے شہری ہیں، اگر ہم ہی انہیں ذات کی بنا کر الگ کریں گے تو یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک الیکشن کی بات ہے تو میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کئی لوگ خود بھی کھڑے نہیں ہوتے اور الیکشن میں کھڑا ہونے کے لیے وہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے پارٹی بھی انہیں ٹکٹ نہیں دیتی‘۔

وہ کہتی ہیں کہ 2018 کے الیکشن سے کامیاب ہونے کے بعد انہوں تھرپارکر میں ہندو برادری کے لیے تقریباً 40 سے 50 کمیونٹی سینٹر، میڈیکل سینٹرز اور بڑی حد تک پانی کے مسائل پر کام کیا ہے۔

  بہت سے مسیحی معاشرے کے غریب ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
بہت سے مسیحی معاشرے کے غریب ترین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

’مسیحی برادری کی نمائندگی کرنے والے سندھ اسمبلی کے واحد رکن‘

اگست 2018 سے اگست 2023 تک سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہنے والے انتھونی نوید کہتے ہیں کہ مسیحی برادری اقلیتوں میں بھی ایک اقلیت ہے، ان کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے، 2018 سے 2023 تک وہ سندھ اسمبلی میں واحد رکن تھے جن کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔

2018 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے ایک بھی مسیحی امیدوار کو مخصوص نشست کے لیے ٹکٹ نہیں دیا تھا، انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر وہ واحد مسیحی رکن ہوں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کے لیے ہمیں بہت بڑی اکثریت چاہیے، سیاسی جماعتیں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے، ماضی میں کچھ پارلیمنٹیرین نے وقتاً فوقتاً اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی لیکن اس پر کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں آیا‘۔

اقلیتوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے کارکن کہتے ہیں کہ اقلیتی برادری کے لیے کم از کم 15 سیٹیں ہونی چاہئیں جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کیلئے حل کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما جے پرکاش کا کہنا تھا کہ جس حساب سے اقلیتوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کی کوئی اور بڑی وجہ سامنے نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہندو اور مسیحی آبادی کے تقریباً 45 لاکھ اقلیتی ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، قومی اسمبلی میں کُل 10 نشستیں ہیں، ایک سیٹ تقریباً ساڑھے چار لاکھ ووٹ پر جاتی ہے، مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ چونکہ ہندووں کی آبادی پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اس لیے نشستوں کی بنا پر انہیں نمائندگی نہیں مل پارہی ، اگر نشستوں کی حلقہ بندی کی جائے تو بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر میں آزاد الیکشن لڑنا چاہوں تو نہیں لڑسکتا، صوبے، کمیونٹی یا علاقوں کی سطح پر نشستوں کو تقسیم کیا جائے تو بہتری کی گنجائش آسکتی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں سیاستدان اقلیتوں کی نشستوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، جب بھی الیکشن آتے ہیں اقلیتوں کی نشستوں پر سوالات اٹھتے ہیں، اس بار بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

جے پرکاش نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں میرٹ کا نظام بھی نظر نہیں آتا مثال کے طور پر اس بار الیکشن میں سندھ کے ضلع تھرپار کے صرف ایک شہر اسلام کوٹ سے 5 نمائندوں کو سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ دیے ہیں اور پانچوں ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں، اس لیے دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں بھی لوگوں کے ساتھ ناانصافی کررہی ہیں، اگر اقلیتوں کے جنرل نشستوں کی طرح ووٹ کے ذریعے الیکشن کروائے جائیں تو حقیقی نمائندے سامنے آسکتے ہیں لیکن پارٹی میں وہی لوگ آتے ہیں جو پارٹی کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سابق اقلیتی رہنما نے دعویٰ کیا کہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف نے اقلیتوں کےلیے کئی نمایاں کام کیے جن میں ملازمت اور تعلیم میں 5 فیصد کوٹہ پر عمل کروایا، کرتارپور راہدری بھی پی ٹی آئی حکومت کی کوششوں کی وجہ سے بحال ہوا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی سریندر ولاسائی کہتے ہیں کہ ’یہ نشستیں آئینی ترمیم کے ذریعے ہی بڑھائی جا سکتی ہیں، یہ سچ ہے کہ 1985 کے بعد سے مذہبی اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، موجودہ آبادی کے تناسب کے مطابق قومی اسمبلی میں غیر مسلم نشستوں کی تعداد 14 اور سندھ اسمبلی میں 14 ہونی چاہیے‘۔

اسی حوالے سے جب ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سینیٹر سسی پلیجو سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ اقلیتوں کو ان کا جائز حق دیا جائے، ایوان میں جب نشستیں بڑھانے کی بات ہوتی ہے تو قانون سازی کے عمل کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے اس کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کا ایک پیچ پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر دیکھیں تو پیپلزپارٹی نے نہ صرف مخصوص بلکہ جنرل نشست پر بھی اقلیتوں کو کھڑا کیا، مثال کے طور پر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے مہیش ملانی نے 2018 میں مٹھی سے الیکشن لڑا، سینیٹر گیان چند جنرل نشست پر کھڑے ہوئے، اس کے علاوہ کرشنا کوہلی بھی جنرل نشست پر کھڑی ہوئیں اور پارٹی نے ٹکٹ بھی دیا۔

’سیاسی جماعتوں کو اقلیتوں میں دلچسپی نہیں رہی‘

اسی حوالے سے جب ہم نے متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) کا موقف جاننے کی کوشش کی تو ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سابق رکن اسمبلی منگلا شرما نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں اقلیتوں کی نشستیں بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، سیاسی جماعتیں اس حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی توجہ صرف نشستوں کو پورا کرنے کی حد تک ہے ورنہ ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

منگلا شرما نے کہا کہ تقریباً 1990 کی دہائی سے اب تک 10 نشستیں ہیں، اب اقلیتوں کی آبادی بھی بڑھ چکی ہے اس لیے ان کی نشستوں میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

منگلا شرما نے کہا کہ جس طرح خواتین کے لیے مخصوص کوٹہ بنایا گیا ہے بالکل اسی طرح اقلیتی برادی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے بھی مخصوص کوٹہ مقرر کردیا جائے تو سیاسی جماعتوں پر لازم ہوگا کہ وہ اقلیتی برادی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سامنے لائیں اور ان کی برادری کی نمائندگی کریں۔

ایم کیو ایم کی رہنما نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں بھی اقلیتوں کی سیاسی نمائندگی میں انہیں کوئی خاص فرق نہیں نظر آرہا ہے، اقلیتی رکن اگر اسمبلی میں چلے بھی جائیں تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے کہ وہ بھرپور طریقے سے نمائندگی کرسکیں، گزشتہ کچھ برسوں میں مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ اسمبلی میں اقلیتوں کے مسائل پر بات کی جاتی ہے اور ریاست بھی ردعمل دیتی ہے، آئندہ انتخابات میں نئے آنے والے اقلیتی رہنما اگر محنت سے کام کریں تو چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں شاید اس فیز میں نہیں ہیں کہ وہ اہم سیٹوں پر اقلیتوں کو ٹکٹ دے کر خطرہ مول لیں،جماعتوں کی یہ سوچ ہے کہ اگر وہ اقلیتیامیدواروں کو ٹکٹ دے دیں تو مخالف امیدوار مذہب کارڈ استعمال کرکے سارا معاملہ خراب کردیں گے، اگر اسے سیاسی جماعتوں کا خوف کہیں تو غلط نہ ہوگا، میں سمجھتی ہوں کہ شاید آنے والے دنوں میں اقلیتوں کے لیے راستے مزید کھل سکتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا موقف لینے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ تمام موجود اور سابق اقلیتی رہنما یہی چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے کے علاوہ انہیں مخصوص علاقے سے بھی الیکشن لڑوایا جائے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کی بہتر نمائندگی کرسکیں۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو جہاں دیگر مسائل کا سامنا ہے، اس کے ساتھ ووٹ کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، یہ مسائل آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ گزشتہ کئی برس سے ملک میں یہ مسائل چلتے آرہے ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

اب شاید اس بار بھی ماضی کے انتخابات کی طرح ہی صورتحال رہے گی، سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کی خاطر اقلیتی امیدوار کا نام شامل کرلیں گی لیکن وہ اسمبلی تک نہیں پہنچ سکیں گے یا صرف جماعتیں اپنے پسندیدہ امیدوار کو ٹکٹ دے دیں گی، سیاسی رہنماؤں کے غیر سنجیدہ رویے اور اقدامات کی وجہ سے آج مذہبی اقلیتی رہنما تعلیم، ملازمت یہاں تک کہ ہر شعبے میں پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ انہیں ان کا جائز حق دیا جائے اور یہ اسی وقت ہی ممکن ہے جب انہیں مردم شماری میں مکمل گنا جائے اور اسمبلیوں میں درست نمائندگی دی جائے۔