دورہ افغانستان کے دوران ٹی ٹی پی کے مسئلے پر بھی بات کروں گا، فضل الرحمٰن

07 جنوری 2024
مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے— فوٹو بشکریہ ایکس/ جے یو آئی(ف)
مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے— فوٹو بشکریہ ایکس/ جے یو آئی(ف)

جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ وہ دورہ افغانستان میں کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے معاملے پر بھی بات چیت کریں گے۔

افغان عبوری حکومت نے گزشتہ ماہ جے یو آئی(ف) کے سربراہ کو دورے کی دعوت دی تھی، یہ دورہ 2021 میں طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد فضل الرحمٰن کا افغانستان کا پہلا دورہ ہو گا۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے آخری بار 2013 میں افغانستان کا سفر کیا تھا اور اس وقت کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی تھی۔

مولانا فضل الرحمٰن نے آج اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے طالبان کے سپریم لیڈر کی منظوری سے دعوت نامہ موصول ہوا ہے اور میں ان سے ملاقات کروں گا، میں طالبان کے سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات کے لیے قندھار جاؤں گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹی ٹی پی کا معاملہ بھی افغان حکومت کے سامنے اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ ہاں اس بات کا امکان ہے، ہم اپنے تعلقات کو خیر سگالی کے لیے استعمال کریں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حکومت کی نمائندگی کریں گے تو انہوں نے کہا کہ اس دورے کا اہتمام میری جماعت نے کیا تھا لیکن میں نے دفتر خارجہ اور متعلقہ سرکاری حکام سے بھی رابطہ کیا ہے اور اس دورے کے دوران ہم پاکستان اور افغانستان کے مفادات کو مدنظر رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ نے اس سلسلے میں 3 جنوری کو بریفنگ کا اہتمام کیا تھا، انہوں نے مجھے پاکستان کے موقف اور مطالبات سے آگاہ کیا، میں محسوس کرتا ہوں کہ حکام میرے دورے کو اہمیت دے رہے ہیں اور حکومت اس حوالے سے مجھ سے رابطے میں ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حکومت کی طرف سے طالبان حکمرانوں کو کوئی پیغام پہنچائیں گے تو انہوں نے کہا کہ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ اپنے رابطوں کو دونوں ممالک کے فائدے کے لیے استعمال کروں گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ میں طالبان رہنماؤں کو حکومت پاکستان کے موقف اور جو کچھ میں نے حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران دیکھا، اس سے آگاہ کروں گا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس دورے سے پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی، تو انہوں نے کہا کہ اس بات کا انحصار دونوں ملکوں پر ہے، اگر وہ برادرانہ تعلقات اور دوستی برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پیچیدہ مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان کی ایسی نیت ہی نہ ہو تو چھوٹے مسائل بھی بڑے ہو جاتے ہیں۔

جمعیت علمائ اسلام(ف) کے سربراہ نے مزید کہا کہ مجھے جو اشارے ملے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ میرے دورے کے اچھے نتائج برآمد ہوں، افغانستان بھی اس دورے کو اہمیت دے رہا ہے کیونکہ طالبان سربراہ نے ذاتی طور پر مجھے دعوت دی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ اٹھائیں گے تو انہوں نے کہا کہ اسلامی قانون میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہر ملک کو داخلی معاملات، امن و سلامتی، ، معیشت، سماجی اصلاحات اور تجارت کے بارے میں پالیسیاں اپنانے کا حق ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ افغانستان میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئی بلکہ 20 سالہ جنگ ختم ہو چکی ہے، دنیا کو آخر مسئلہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ہر مسئلے پر بات کرتے ہیں اور امارت اسلامیہ کو ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو ایک ماحول بنانے دیں، امارت اسلامیہ کو احساس ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے، وہ ایک نظام قائم کررہے ہیں اور جلد اس عمل کو مکمل کر لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں