جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ سمیت قیادت سے ملاقات کے بعد دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان داخلی و خارجی استحکام لانا اور مسائل کو حل کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن 7 جنوری سے افغانستان کے دورے پر ہیں جنہیں افغان قیادت نے دورے کی دعوت دی تھی اور آج دورے کے اختتام پر انہوں نے دورے کو خوش آئند اور کامیاب قرار دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن طالبان سربراہ سے ملاقات کرنے والے دوسرے غیر ملکی رہنما بن گئے ہیں جہاں ان سے قبل گزشتہ سال مئی میں قندھار میں قطری وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کی تھی۔

اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے 11 رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے ہیبت اللہ اخوند زادہ سے ملاقات کرنے والے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے جمعے کو افغان نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے سربراہ سے ملاقات کی تصدیق کی، یہ انٹرویو ہفتہ کو نشر کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغان قیادت سے رابطے میں تھے، انہوں نے ہمیں مثبت جواب دیتے ہوئے ہمیں مکمل سپورٹ کیا جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔

جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کیا آپ طالبان کے سربراہ سے ملے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یقیناً میں کھوکھلے دعوے نہیں کر رہا ہوں۔

ملاقات کے ایجنڈے کے حوالے سے جے یو آئی(ف) سربراہ نے کہا کہ کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان مسائل سمیت تمام امور پر بات چیت کی۔

انہوں نے کہا کہ میرے دورے کا مقصد یہ تھا کہ ہم خود کو صرف ایک مسئلے تک محدود نہ رکھیں، ہم نے جامع اور بھرپور مذاکرات کیے اور تمام مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے تجاویز کا تبادلہ کیا۔

جے یو آئی(ف) نے دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے بیان میں کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے افغان نائب وزیراعظم عبدالغنی برادر، وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد، وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور مہاجرین کے وزیر خلیل الرحمٰن حقانی سے بھی ملاقاتیں کیں۔

جے یو آئی(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کا منظر— فوٹو بشکریہ جے یو آئی (ف)
جے یو آئی(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کا منظر— فوٹو بشکریہ جے یو آئی (ف)

نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برابر نے مولانا فضل الرحمان کا استقبال کیا اور ان کے دورے کو دونوں ممالک کے لیے خوش آئند قرار دیا۔

وزیردفاع ملا یعقوب نے بھی جے یو آئی(ف) سربراہ کے دورے کو وقت کی مناسبت سے اہم قرار دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ امارات اسلامیہ کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس دورے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو حل کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت قانونی طور پر ہوں، پاکستان کے علما امارات اسلامیہ کے ساتھ ہیں اور ہمارہ دورہ جزبہ خیرسگالی کے تحت ہے۔

اس موقع پر ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ امارت اسلامی محفوظ اور پر امن ملک ہے اور آپ کے دورے کے مثبت اثرات ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اور آپ کا تعلق آج کا نہیں بلکہ بڑوں کے وقت سے چلتا آرہا ہے اور ہم نے کبھی آپ کے اور اپنے درمیان فرق نہیں کیا۔

عبدالغنی برادر نے مزید کہا کہ ہم امید کرتے ہے آپ کے دورے کے بعد صورتحال میں تبدیلی آئے گی اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو گی۔

وزیرتجارت نے ملاقات کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثبت تجارت پر زور دیا جس پر مولانا فضل الرحمٰن نے امارت اسلامی کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

افغان وزیر داخلہ سے ملاقات

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے امارت اسلامی افغانستان کے وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی جس میں وزیر مہاجرین حاجی خلیل الرحمٰن سمیت دیگر عہدیداران موجود تھے۔

وزیرداخلہ خلیفہ سراج الدین نے مولانا فضل الرحمٰن کے دورہ افغانستان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے انہیں افغانستان کی داخلی صورتحال سے آگاہ کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے خلیفہ سراج الدین کی دونوں ممالک کے درمیان کردار اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمارے دورے کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان داخلی و خارجی استحکام لانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھے گی تو خوشحالی اور امن آئے گا، پاکستانی قوم افغانستان کے عوام کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔

خلیفہ سراج الدین نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ داخلی معاملات پر بہترین تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان اور افغانستان کے سرحدی امور پر مذاکرات اور باہمی اشتراک کو آگے بڑھنا چاہیے۔

اس دوران وزیر مہاجرین خلیل الرحمٰن حقانی نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کا ناروا سلوک ختم ہونا چاہیے اور مہاجرین کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کو رضاکارانہ طور پر وقت دینا چاہیے تھا۔

اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کے وقت ناروا سلوک پر ہم نے بھی آواز اٹھائی تھی۔

پاکستان کے کچھ حصوں میں تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے حملوں کے سبب پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں اور اس تناظر میں مولانا فضل الرحمٰن کے دورے کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سمیت پاکستانی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ ٹی ٹی پی ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتی ہے تاہم اس بیانیے کے برعکس طالبان قیادت افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی سے انکاری ہے۔

جے یو آئی(ف) کے بیان میں ملا یعقوب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

ملا یعقوب نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس دورے کے بعد صورتحال بدل جائے گی۔

اپنے دورے سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ افغان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں