کراچی: صدیوں کی کتھا! (نویں قسط)

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


وقت کی کوکھ میں پلتی کچھ گُتھیاں ایسی ہوتی ہیں جو شاید کبھی نہیں سُلجھتیں۔ ہم سندھو گھاٹی کی لاکھوں میلوں میں پھیلی ہوئی تہذیب کی بات ضرور کرتے ہیں، ان کے بڑے بڑے شہروں کی تعمیرات دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہیں، ان کے مغربی دنیا سے بیوپار کے وسائل اور ذرائع دیکھ کر ہم کو اچھا بھی محسوس ہوتا ہے۔ مگر جب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں کونسی زبان بولی جاتی تھی تو ہمیں کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا اور ایک دو جملوں سے اس زبان کی تحریر کے ہمیں ثبوت نہیں ملتے اور ملی ہوئی اُن مختصر سی تحریروں یا نشانیوں کو ابھی تک پڑھا بھی نہیں جا سکا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب شمال مغرب، مغرب اور جنوب مغرب کے دریاؤں کے کناروں پر تخلیق ہونے والی تہذیبوں کے پاس تحریروں کے خزانے تھے، اکادی زبان میں گل گامش کی رزمیہ داستان مٹی کی تختیوں پر تحریر کی جا رہی تھی اور 18ویں صدی قبلِ مسیح میں حمورابی کے قوانین لکھے جا رہے تھے۔ مصر میں لاشوں کو حنوط کرنے والے یونٹ کی روزانہ حاضری لگتی تھی اور جو جس دن نہیں آتا تھا اُس کے نہ آنے کے اسباب بھی تحریر کیے جاتے تھے یہاں تک کہ مصر کے اہرام تحریروں سے بھرے پڑے ہیں۔ مگر ہمارے پاس کچھ مہروں کی تحریروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اب تحریر کی عدم موجودگی کے بعد ایک اور پُراسرار حقیقت جس کی گٹھری صدیوں سے نہیں کُھلی، کم سے کم آج تک تو نہیں کھُلی، کہ دریائے سندھ کی بنی ہوئی اس گھاٹی کا زوال جو 1750 قبل مسیح سے شروع ہوا اور ایک ہزار قبل مسیح تک چلا، اس کی ٹھوس وجوہات کیا تھیں؟ یہ سوال بھی دیگر کئی سوالوں کی طرح تشنہ ہے۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ کوئی قدرتی آفت ہوسکتی ہے جیسے بارشوں کے سلسلے یا قحط وغیرہ۔ تاریخ پر کام کرنے والے اس بات پر آپس میں بھڑے ہوئے ہیں کہ آریاؤں کی آمد اور اُن کی وحشت نے تمام صنعتی اور بیوپاری ڈھانچے کو کسی گُھن کی طرح چاٹ لیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ آریاؤں کے آنے کی بات ہی غلط ہے۔ وہ یہاں سے گئے تھے اور واپس اپنی زمین پر لوٹ آئے۔

   سرکپ ٹیکسلا—تصویر: لکھاری
سرکپ ٹیکسلا—تصویر: لکھاری

ایسے بحث و مباحثوں میں باتوں کی دھول بہت اُڑتی ہے جس میں حقیقت کی نشانیاں ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی تحقیق میں جب آپ کی جذباتی کیفیتیں شامل ہوجائیں تو پھر کسی بہتر اور حقیقت کے قریب نتائج کی تمنا کرنا بےسود ہے۔ بہرحال جو بھی ہوا، گزرے زمانوں کے اس منظرنامے پر بالخصوص ہمارے موضوع کے حوالے سے خاموشی کی ایک لمبی چادر تنی ہوئی ہے۔ ویدوں (ہندو مت کے قدیم الہامی کتب کے مجموعے کا نام) میں چونکہ شمالی مشرقی حصے کا کچھ ذکر ملتا ہے یا دریائے سندھ کا، مگر سمندر کناروں یا یہ کہنا چاہیے کہ جنوبی سندھ کا ذکر نہ ہونے کے برابر ملتا ہے۔ انہیں اسباب کی بنا پر ہم کچھ کہنے کی کیفیت میں نہیں ہیں خاص طور پر کراچی کے حوالے سے۔

مگر ان حوالوں سے یہ بات اخذ نہیں کرنی چاہیے کہ سمندر کنارے سے ملتان یا ٹیکسلا تک ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ آریاؤں کی آمد کی وجہ سے شمالی علاقے آریاؤں اور مقامی قبائل کے آپس میں بھڑنے کی وجہ سے جنگ کے میدان بنے ہوئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئے آنے والوں نے پرانے رہنے والوں کو جنوب کی طرف ضرور دھکیلا مگر یہ بھی افسانہ نہیں ہے کہ ایک زمانے کے بعد ہمیں پھر انہیں علاقوں میں مقامی لوگوں کی حکومتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ جیسے ’مگدھ‘ کی طرف جس کے متعلق ہم بات کرنے والے ہیں، جبکہ ٹیکسلا سے جنوب مغرب تک کا منظرنامہ محتلف تھا، وہاں مقامی حاکموں کی چھوٹی بڑی حکومتیں تھیں جو اپنے قبیلوں کے بنیاد پر مستحکم تھیں۔ زیادہ آسانی سے سمجھنے کے لیے ہم شمال مشرق جنوب کو گنگا گھاٹی اور شمال جنوب مغرب کو سندھو گھاٹی کے ناموں سے یاد کریں گے۔

   ٹیکسلا—تصویر: لکھاری
ٹیکسلا—تصویر: لکھاری

قدیم تاریخ اور عہد وسطیٰ کے متعلق ہماری معلومات مایوس کُن حد تک غیر متغیر اور غیریقینی ہے۔ اگر ہم چھٹی صدی قبل مسیح قدیم زمانوں کے سیاسی حالات جاننا چاہیں تو ہمارا انحصار بدھ مت اور جین مذہب کی مقدس کتابوں پر ہے جو تاریخی حوالے سے انتہائی ناقص ہیں۔ بقول اے-ایل-باشم، ان کتابوں کے مصنفین نے سیاسی معاملات پر توجہ نہیں دی اور ویدوں کی طرح یہ کتابیں بھی صدیوں تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ مگر ویدوں کے برعکس زمانے کے ساتھ حجم میں بڑھتی گئیں۔ بہرحال ہمارے پاس اُن زمانوں میں گنگا ویلی کی دو بڑی حکومتوں کوسل اور مُگدھ کے متعلق بہت ساری معلومات ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ہی بدھ مت اور جین مذہب کے بانیوں مہاتما بدھ اور مہاویر کی سرگرمیوں کا مرکز رہیں۔

کوسل کی حکومت جو افسانوی شخصیت رام کا وطن تھی پہلے ہی زوال پذیر ہوچکی تھی، اس کا بادشاہ پرسن جیت (پالی میں: پسندی) ایک طاقتور حکمران تھا۔ مگر بدھ مت کی مقدس کتابوں میں اسے ایک ناکارہ بادشاہ کہا گیا ہے جبکہ مگدھ (مگدھ سلطنت جنوبی ہند کی ایک تہذیبی یافتہ سلطنت تھی۔ مہاویر (527-599) ق۔م میں جین مت اور سدھارتھ (483-563) ق۔م میں بدھ مت کی داغ بیل ڈال چکے تھے) کے بادشاہ بمبسار ایک زبردست بادشاہ تھا اور اپنی سلطنت میں گھوم پھر کرحالات کا مطالعہ کرتا اور مسائل کا حل ڈھونڈتا، وہ ایک پُرامن انسان تھا اور اپنے مغربی ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھتا تھا یہاں تک کہ اس کے بالائی سندھ میں واقع گندھارا جیسی دور دراز حکومت سے بھی خوشگوار تعلقات تھے۔

آریاؤں نے بعدازاں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔ سبط حسن لکھتے ہیں کہ ’مہابھارت کے ساتھ وادی سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رِگ وید سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ضرور تھا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریاؤں نے قائم کی تھیں، انہیں دوسرے مٹا نہ سکے، خاص طور پر آریاؤں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص ’خروشٹی‘ اور ’شورسینی‘ کو حاصل ہے۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنی‘۔ مگدھ کے بمبسار نے اپنی ابتدائی تعلیم ٹیکسلا میں حاصل کی تھی۔ آرتھر باشم لکھتے ہیں ’ہم جب مگدھ، کوسل، وتسہ اور ونتی سلطنتوں کی بات کرتے ہیں تو یہ وہ زمانہ تھا جب گنگا وادی میں تہذیب کا نقطہ ارتکاز مشرقی حصہ ہوگیا تھا اور برہمنی تمدن کے حدود کے باہر ان چار عظیم حکومتوں نے سیاسی و معاشی اہمیت میں کوروں کے پرانے وطن کی عظمت کو خاک میں ملادیا تھا۔

    گنگا اور سندھو گھاٹی میں، چھ سو قبل مسیح کی حکومتیں
گنگا اور سندھو گھاٹی میں، چھ سو قبل مسیح کی حکومتیں

مہاتما بدھ کی وفات سے سات سال قبل بمبسار کے بیٹے اجات شترو نے اپنے باپ کو تخت و تاج سے محروم کرکے قید کردیا اور 490 قبل مسیح میں اسے قتل کردیا۔ مہاتما بدھ نے 483 ق۔م میں یہ جہان چھوڑا۔ ان دونوں باپ بیٹوں نے اپنی سلطنت کی وسعتیں بڑھانے کے لیے بہت محنت کی اور یہ ممکن ہے کہ اجات شترو کا باپ بمبسار، فارس کے ’ہخامنشی‘ (Aehaemenid) کے بانی ’کوروش اعظم‘ (دوئم: 558-530 ق-م) سے متاثر ہوا ہو جو بمبسار سے 16 سال قبل تخت پر بیٹھا تھا۔ باشم لکھتے ہیں ’سائرس دوئم انتہائی تیز رفتاری سے دنیا کی عظیم سلطنت کو وجود میں لایا، اس وقت شمال مشرق میں ٹیکسلا کا شہر علم و تجارت کا مرکز تھا‘۔

519 ق۔م کے بیستون کے کتبہ کے مطابق (اس کتبہ کی اونچائی 7 میٹر اور 80 سینٹی میٹر ہے اور اس کی لمبائی 22 میٹر ہے جس کے مرکز میں قدیم فارسی ’میخی‘ رسم الخط پر کا یہ قدیم فارسی متن مجموعی طور پر 525 سطروں پر مشتمل ہے۔ اس کتبہ میں تحریر کے علاوہ مختلف مناظر ہیں جو پھتروں پر نقش کیے گئے ہیں۔ ان میں داریوش کبیر کی شاندار کامیابیوں اور دشمنوں کے عجز و عزمیتوں کو دکھایا گیا ہے)۔ تیسرا ہخامنشی شہنشاہ دارا اول گندھارا پر قابض تھا۔ آپ اگر سائرس اعظم کی حکومت کی سرحدیں دیکھیں گے تو مغرب میں سارڈیس (قدیم یونان)، شمال میں آرمینیا، مشرق میں گندھارا شامل تھے۔

   بیستون کا کتبہ
بیستون کا کتبہ

ہیروڈوٹس کوروش اعظم کی مشرقی مہم جوئی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مشرقی لشکر کشی لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے قبل پیش آئی۔ اس کے بعد مشرق کی طرف اس لیے متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ و ہرات) کے قبائل نے سرکشی کی۔ یہ مہم 540 اور 545 ق-م میں ہوئی، سلطنت کورش اپنے وقت کی سب سے بڑی سلطنت تھی، کورش کی حکومت کے خاتمے تک یہ سلطنت ایشائے کوچک اناطولیہ سے لےکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پھر دریائے سیحوں اور دریائے جیہوں کے درمیانی علاقہ صغدیہ کو فتح کیا۔ اس طرح اس کی سلطنت ماورالنہر اور ہندو کش تک پھیل گئی۔

   سائرس دوئم کے وقت میں ہخامنشی سلطنت کی حدود
سائرس دوئم کے وقت میں ہخامنشی سلطنت کی حدود

اس مختصر سے قدیم تاریخی تعارف کو تحریر کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ انڈس ویلی کے اچانک پُراسرار طور پر گُم ہو جانے کے بعد ہمارے پاس ایسی کوئی پگڈنڈی نہیں تھی جس پر چل کر ہم اِس زمانے تک پہنچتے۔ اس لیے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اور پڑھنے والے کو زیادہ پریشانی سے بچانے کے لیے ان زمانوں کے منظرنامے کو مختصراً بیان کرنا مجبوری تھی۔ اب ہم تقریباً سندھ بالخصوص اس کے جنوبی سمندری کنارے کے نزدیک آ پہنچتے ہیں جہاں سے ہم پھر اس حصے کی تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

521 قبل مسیح میں دارا اول تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ مگر کابل ندی سے نیچے جنوب مغرب کی طرف جو سندھ کا ملک تھا وہ ابھی اس ہخامنشی سلطنت کا حصہ نہیں تھا۔ مگر دارا اول یہ ضرور چاہتا تھا کہ زیادہ آبادی اور بستیوں والا ملک اس کی دسترس میں ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے سائیلیکس کو ایک بڑی ٹیم کے ساتھ سندھ کے سروے کے لیے بھیجا، جس کا مختصر ذکر ہم پڑھنے والے ہیں۔

    دارا اول
دارا اول

اس بات کو حقیقت یا سکندراعظم کے اچھے نصیب کہیں کہ ہخامنشی سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد جب وہ ٹیکسلا سے ہوتا ہوا سندھ میں داخل ہوا تو اٹک، ملتان، سکھر، پٹالا اور کراچی تک وہی راستہ اختیار کیا جو سائیلیکس نے دریائی اور خشکی کے لیے استعمال کیے تھے۔ مختصراً یہ کہ غیر دانستہ ہی سہی سکندر کو یہاں لانے کے لیے فطرت نے کام شروع کردیا تھا۔ یہ بھی بڑی دلچسپ داستان ہے کہ سکندر ٹیکسلا سے سکون سے گزرتا ہوا آگے پورس سے لڑتا اور پھر دوستی کرتا آگے بڑھا اور جیسے ملتان کے قریب پہنچا تو اُسے مقامی حکومتوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ سکندر کے پھیپھڑوں میں چھید کرتا ہوا مقامی لوگوں کا پہلا تیر اُسے ملتان کے آس پاس لگا۔ مگر سکندر کے یہاں آنے میں ابھی کچھ وقت ہے۔ اس سے پہلے ہم سائیلیکس کے اس سفر کے متعلق کچھ جان لیتے ہیں۔

   سائیلیکس اور سکندر اعظم کا دریائے سندھ کا سفر
سائیلیکس اور سکندر اعظم کا دریائے سندھ کا سفر

ہیروڈوٹس کی تحریر کے مطابق ’ہندوستانیوں کو ’سائیلیکس‘ کے مشہور دریائی سفر کے بعد تسلط میں لایا گیا۔ یہ سفر اُس نے دریائے سندھ کے راستے سمندر تک کیا تھا اور پھر بحیرہ عرب سے ایران اور عربستان کے کناروں سے ہوتا ہوا مصر جا پہنچا تھا‘۔ ’دارا‘ نے اس مہم کے احکامات اس لیے دیے تھے کیونکہ دریائے سندھ اور ایران کے درمیان کشتی رانی کے امکانات پر کام کیا جاسکے۔ انہوں نے 522 ق-م میں ’سائیلیکس‘ کو یہ مہم سونپی تھی۔ اُسے پتا لگا تھا کہ جس طرح مصر کی نیل ندی میں مگرمچھ ہیں بالکل اسی طرح سندھو ندی میں بھی مگرمچھوں کی بہتات ہے اور دارا کے لیے یہ بھی راز پوشیدہ تھا کہ دریائے سندھ کہاں جا کر سمندر میں ملتا ہے۔

سائیلیکس نے اپنا سفر کیسپیٹائرس (دریائے کابل کی وادیوں میں کہیں تھا) کی طرف کیا جو کہ گندھارا صوبے میں تھا اور ہخامنشی سلطنت کے ساتویں صوبہ کے طور پر جانا جاتا تھا مگر سائیلیکس اور اس کی ٹیم نے کیسپیٹائرس میں زیادہ وقت نہیں گزارا اور کابل ندی کے بہاؤ میں تقریباً 200 میل کا سفر کیا اور اُس جگہ پر پہنچے جہاں دریائے کابل دریائے سندھ سے ملتا تھا۔ وہاں سائیلیکس نے آگے کے سفر کے لیے نئی کشتیاں بنوائیں۔ اس کے بعد وہ دریائے سندھ کے بہاؤ میں جنوب کی طرف بڑھا۔ اس کی ٹیم میں جو ساتھی تھے وہ اچھے جاسوس ہونے کا کام کررہے تھے۔ تو وہ زمینی حالات، جنگل، جانوروں اور فصلوں کا تفصیلی جائزہ لیتے اور تحریر کے دائرے میں لاتے رہے۔ 13 ماہ کے سفر کے بعد وہ سمندر کے ڈیلٹا کنارے تک پہنچے جہاں سندھو ندی کے سات دہانے سمندر میں پانی چھوڑتے تھے۔ ہیروڈوٹس کے مطابق ’وہ اپنی کشتیاں مغرب کی طرف بہاؤ میں لے گیا تھا اور ڈھائی برس کے بعد سائیلیکس مصر پہنچا تھا‘۔

   کابل ندی کا ایک منظر
کابل ندی کا ایک منظر

سائیلیکس یونانی کے سفر کی داستان جو اس نے تحریر کی تھی وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی مگر ہیروڈوٹس نے اپنی تحریر میں اس سے استفادہ ضرور کیا اور ساتھ ہی 500 ق۔م میں ایک اور یونانی جغرافیہ دان ’ھیکاٹیس‘(Hecataeus) کی کتاب ’Journey round the Earth‘ سے بھی مدد لی ہوگی کیونکہ ھیکاٹیس (550۔ 476 ق۔م) نے بھی سندھ کا بڑے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ کبھی ہم بھی ھیکاٹس کے ساتھ اس قدیم سفر پر اس کے ساتھ چلیں۔ اس لیے ہمارے پاس اس زمانے کی معلومات کا واحد ذریعہ ہیروڈوٹس ہی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یونانی سنی سنائی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے تھے اور ساتھ ہی ان سنی ہوئی باتوں کو مزیدار بنانے کے لیے بڑھا چڑھا کر تحریر بھی کرلیتے تھے۔

’ہیروڈوٹس‘ لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کے مشرق میں ریگستان ہے‘، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں گنگا گھاٹی کی معلومات نہیں تھیں۔ سندھ میں ہخامنشی سلطنت کی حدود ریگستان کے کنارے تک تھیں اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ دریائے سندھ کے مشرق میں واقع پنجاب کا بڑا علاقہ سلطنت کو خراج دیتا تھا اور یہ کہنے کا سبب یہ ہے کہ ہندوستان کی آمدنی اور آبادی، دیگر ماتحت علاقوں سے زیادہ تھی۔

   اپادان محل میں انڈین صوبے سے آئے ہوئے لوکوں کا تراشیدہ منظر
اپادان محل میں انڈین صوبے سے آئے ہوئے لوکوں کا تراشیدہ منظر

’ڈوٹس‘ کے مطابق ہندوستان سونے کی صورت میں 360 ’ٹئلینٹ‘ خراج کے طور پر دیتے تھے جو تقریباً 10 لاکھ پاؤنڈ یعنی اُس زمانے کے ایک سے 2 کروڑ کے برابر ہوتے تھے۔ یہ رقم، ایشیائی صوبوں پر سلطنت کے لگائے گئے خراج کی مجموعی رقم کا تیسرا حصہ تھی۔ تو رقم سے اس ہندو علاقے میں پھیلی وسیع زراعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہیروڈوٹس لکھتے ہیں کہ، ’ان علاقوں کی آدم شماری، دیگر ممالک جن کا مجھے علم ہے، سے زیادہ ہے۔

    ہندوستان سے خراج لینے والا شخص
ہندوستان سے خراج لینے والا شخص

’آپ اگر ہیروڈوٹس کا بنایا ہوا نقشہ دیکھیں تو وہ لفظوں کی ہیر پھیر کے سوا بالکل درست ہے، البتہ ’ہ‘ اور ’س‘ کے آپس میں تبادلہ پڑھنے والوں کو پریشانی میں ڈال دیتا ہے، اس لیے ہمیں تحریر پڑھتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں بھی ’ہند‘ استعمال‘ ہو وہ ہمیں ’سندھ‘ سمجھنا چاہیے۔ ہیروڈوٹس کی تحریر میں ان وسیع ریاستوں کے نام اس طرح تحریر ہیں Sattagydia, Gandara, Hidus Indos, Indus’۔

    سندھو گھاٹی کے تین صوبوں (استراپیز) کی شرکت انڈس، گندھارا اور ستاگی دیا
سندھو گھاٹی کے تین صوبوں (استراپیز) کی شرکت انڈس، گندھارا اور ستاگی دیا

’لئمبرک‘ کے مطابق ’اس سفر کے نتیجے میں اور کچھ حاصل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو مگر اتنا ضرور ہوا کہ ’ہندو‘ یعنی ’دریائے سندھ‘ کی ڈیلٹا ویلی، ہخامنشی حکومت کے ماتحت آگئی۔ سندھو گھاٹی کی تین اہم ساتراپیاں جو ٹیکسلا سے لے کر بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھیں، انہی ساتراپیوں (صوبوں) سے سب سے زیادہ رقم شاہی خزانے میں جمع ہوتی تھی‘، اور ان تمام حقائق کو ہم آج بھی پتھروں پر تراشی ہوئی تصویروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

دارا نے دارالحکومت پرساگریاپسر کے جنوب مغرب میں اندازاً 25 میل کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کیا اور وہاں ایک محل تعمیر کروایا جو ’ظخر‘ کے نام سے مشہور تھا وہ آگے چل کر ’اصظخر‘ ہوگیا۔ یونانی زبان میں اسے ’پرسی پولس‘ (Persepolis) جبکہ پارسی میں ’تخت جمشید‘ پکارا جاتا ہے۔ اس کے مرکز میں وہ شاہی قیصر تھا جو ’طخر‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اس قیصر سے متصل ایک دوسری عمارت بنی ہوئی ہے جس کو آج کل ’ٹرپی لون‘ کہتے ہیں۔ شاید یہی شاہی ایوان تھا۔ وہاں زینہ دار راستوں پر امرا کی شکلیں تراشی گئی ہیں۔ اس عمارت میں تصاویر کے نمونوں میں 28 شکلیں ملتی ہیں جو 28 ’ساتراپیوں‘ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

   ’پرسی پولس‘
’پرسی پولس‘

   ہخامنشی سلطنت کی فوج میں شامل مخلتف خطوں کے سپاہی کی شبیہات
ہخامنشی سلطنت کی فوج میں شامل مخلتف خطوں کے سپاہی کی شبیہات

اس عمارت کے علاوہ ’اپادان‘ (Apadan) یا ’تالار خشیارشا ’(Hall of xerxs) کے نام سے مشہور ایک اور ایسی عمارت بھی موجود ہے جس کے زینوں کے ردیف پر بھی متعدد شکلیں کھدی ہوئی ہیں۔ ان میں 30 محکوم قوموں کے سفیر ہیں جو بادشاہ کو نوروز کا تحفہ پیش کرنے آئے ہیں۔ سائیلیکس کے سفرنامے میں ’تھتاگُش‘ نامی صوبے کا جو ذکر آیا ہے اور جس کا ذکر بیستون کتبے کی فہرست میں شامل ہے، وہ پنجاب کے شمال مغرب میں تھا کچھ محققین اس کو ’غلِزئی‘ یا ’ہزارہ‘ کا علاقہ کہتے ہیں۔

   اپادان محل میں گندھارین لوکوں کا منظر
اپادان محل میں گندھارین لوکوں کا منظر

دارا نے یہ جہان 486 قبل مسیح میں چھوڑا۔ ’نقش رستم‘ میں اس کی قبر پر لگے پتھر پر تین ہندوستانی قوموں کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ دارا کے وارث ’خسرو‘ نے اپنے زمانے میں یونان پر حملے کے لیے ایک زبردست جنگی لشکر اکٹھا کررہا تھا تب اسے اس نئے صوبے ’ہندو‘ یعنی ’سندھو‘ سے، پیادوں اور گھڑ سواروں پر مشتمل ایک فوجی دستہ فراہم کیا گیا تھا۔    ہندوستانی سپاہی

ہیروڈوٹس کے مطابق ’اس دستے میں موجود سپاہیوں نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ سوتی تھے۔ ان کے پاس بید کی کمانیں اور بید کے ہی تیر تھے جن کی انیاں لوہے کی تھیں۔ یہ تھے ہندوستان کے اوزار اور یہ دستہ ’ارتابیتس‘ کے بیٹے ’فارنازاتھریس‘ کی زیر قیادت تھا۔ گھڑسوار فوج کے علاوہ ان کے پاس رتھ بھی تھے جن کو گھوڑے اور جنگلی گدھے کھینچ رہے تھے۔‘ یہ ساری تیاریاں Plataea جنگ کے لیے تھیں جو 479 قبل مسیح میں لڑی گئی تھی۔

لئمبرک صاحب کے مطابق ’جب ہخامنشی سلطنت کے آخری برس تھے، تب بھی ہندوستان ان سے وفادار رہا۔ ’دارا کودومنیس‘ نے جب سکندرِاعظم سے مقابلہ کرنے کے لیے آخری مورچہ سنبھالا تب اس نے سندھو گھاٹی سے اپنی مدد کے لیے فوجوں کو بلوایا اور اُس کا حکم مانتے ہوئے یہاں سے لوگ اور ہاتھی بروقت جنگ کے میدان میں پہنچ گئے تھے اور تباہ کن ’اربیلا‘ جنگ میں بھرپور کردار ادا کیا تھا۔

    ہخامنشی سلطنت کی مشرقی ساتراپیاں
ہخامنشی سلطنت کی مشرقی ساتراپیاں

یہ بھی ممکن نظر آتا ہے کہ اِسی زمانے میں ہندوستانی علاقے کی شمالی سرحد کم ہوکر دریائے سندھ کے کنارے تک آ پہنچی تھی کیونکہ اس موقع پر جنگ میں شہنشاہ کو جو ہاتھی بھیجے گئے تھے وہ دریائے سندھ کے دائیں طرف سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے بھیجے تھے۔

یہاں یہ بھی ممکنات کے دائرے میں آتا ہے کہ سارا انتظام مقامی شہزادوں اور سرداروں کے ہاتھ میں آگیا ہو کیونکہ جب سکندرِاعظم یہاں پہنچا تھا تب اُس کا کسی بھی ایرانی حاکم یا کارندے سے نہ آمنا سامنا ہوا تھا اور نہ کوئی ملاقات ہوئی تھی۔ تاہم اتنا ضرور تھا کہ پورس کی ہاتھیوں والی جنگ کے بعد بحیرہ عرب تک سکندر کو ہر جگہ مقامی لوگوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سکندر کے لیے یہ انتہائی سخت اور تھکادینے والا سفر تھا اور اس تھکا دینے والے سفر میں ہم جلد آکر سکندراعظم سے دریا کنارے اور اربیتی (Arabiti) کی زمین پر ملتے ہیں جہاں سکندر آگے اورئتی (Oreiti) کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔

حوالہ جات

  • The wonder that was India۔ A۔L۔Basham۔Culcutta۔
  • A History of Persia۔ V:1, Sir Percy Sykes۔ Landon۔
  • Skylax of Caryanda۔ By: Marisk۔ 2020
  • Sind: a general introduction۔ Hugh Trevor Lambrick۔ 1992۔
  • ’دی ہسٹریز آف ہیروڈوٹس‘۔ ترجمہ:یاسر جواد۔ نگارشات پبلشرز، لاہور
  • ’تاریخ یونان‘۔ پروفیسر بیوری ۔ترجمہ: سید ہاشمی فرید آبادی۔ کتاب میلہ
  • ’تاریخ ایران‘ جلد اول۔ پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی۔ مجلس ترقی ادب، لاہور