لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

اگر آپ آج ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تو پہلے چند منٹ نکال کر اس تحریر کو پڑھ لیں۔ میں یہاں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کررہا۔ ہم سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں، ہمارا ملک خوشحال ہو، ہمارے حقوق کا تحفظ ہو اور ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو۔

عزیز ووٹر، براہ کرم اس بات کو سمجھیں کہ یہ اتخابات 2007ء کے بعد سے کسی بھی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ اُس سال پاکستان نے فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف ایک انتہائی مشکل منتقلی کا آغاز کیا تھا۔

فوجی حکمرانی کے دور کے اثرات سخت تھے، ادھار کے ڈالروں سے مصنوعی طور پر کھڑی کی جانے والی معیشت واپس نیچے آرہی تھی، آمر کی طرف سے سپریم کورٹ کو محدود کرنے کی کوشش سے عدلیہ مجروح تھی، لال مسجد کے واقعے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہورہا تھا، میدان جنگ میں طالبان کی کامیابیوں کے ساتھ امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے تھے، بینظیر بھٹو کا قتل اور بہت کچھ۔

منتقلی کے اس سفر کو انجام دینا تقریباً ناممکن تھا۔ اس میں معیشت کو مستحکم کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور ملک میں اپنی گہری جڑیں رکھنے والے جہادی گروہوں کے غضب کو دعوت دینے اور وکلا کی تحریک کو سنبھالنے کی سیاسی قیمت کو برداشت کرنا شامل تھا۔

یقیناً یہ مکمل فہرست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ معاملات ایسے ادوار میں انتہائی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب ملک کو فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے۔

موجودہ لمحہ شاید فوجی حکمرانی سے جمہوری حکمرانی کی طرف منتقلی جیسا نہیں ہے۔ لیکن اس میں منتقلی کے کچھ عناصر شامل ہیں جو اُن لمحات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ ملک 2017ء سے ہائبرڈ حکومتوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس سال کے بعد سے ہر ایک ہائبرڈ تجربہ قلیل المدتی تھا، یعنی اسے ضرورت کی وجہ سے چلایا جارہا تھا اور بنیادی طور پر اس کی بقا کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

2017ء کے ہر ہائبرڈ تجربے کی اپنی منفرد ساخت تھی۔ مثال کے طور پر عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت حکومت حکمران جماعت کی باقیات میں سے چنی گئی قیادت پر مشتمل تھی۔ اگلی حکومت ایک نئی سیاسی جماعت کی تھی جس نے پہلے کبھی ملک پر حکومت نہیں کی تھی، یہ حکومت عمران خان کی زیر قیادت تھی۔

اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی جس کی قیادت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ایک غیر متوقع اتحاد کے ذریعے کی گئی تھی، یہ عمران خان کی مخالفت کرنے یا ملک بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، اس کا انحصار آپ کے سیاسی نظریے پر ہے۔ پی ڈی ایم کے بعد نگران حکومت آئی جسے ہم ووٹر آج گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

ہائبرڈ حکومتوں کے ان نہ ختم ہونے والے سات طویل سالوں نے معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ انہی سات سالوں میں ملکی تاریخ کے کسی بھی دوسرے سات سالہ دور کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں اب تک کا سب سے بڑا نقصان دیکھا گیا ہے۔

ڈالر کی قدر میں 2017ء کے موسم گرما سے 2023ء کے موسم گرما تک، تقریباً تین گنا اضافہ ہوا جس کے بعد آخر کار اس میں کچھ کمی آئی لیکن اس کمی کو یہ 2024ء کے موسم گرما تک دوبارہ پورا کرسکتا ہے۔

ان برسوں نے ملک میں مہنگائی کے سب سے زیادہ خوفناک دور کو بھی دیکھا۔ 2021ء سے شروع ہونے والی مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اپنا گزارا کرنے کے لیے جس رقم پر انحصار کرتے ہیں اس کی قدر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی تھی۔

میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا اور مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کے محرکات کیا تھے۔ میں ان معاملات کے بارے میں پہلے ہی کافی لکھ چکا ہوں۔ آج کے لیے صرف اس بات پر زور دینا کافی ہے کہ یہ دونوں مظاہر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔

ایک کے بعد ایک ہائبرڈ حکومتوں کے سات سال مہنگائی میں اضافےاور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ درآمدی پابندیوں میں شدت آنے اور زرمبادلہ کے قلیل ذخائر کے انتظام کی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ترقی کے زوال اور بےروزگاری میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ چیزیں ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ ایک ہی سکے کو دو رخ ہیں۔

ہمیں اسی چیز کو آج نکال باہر کرنا ہے۔ آج فوجی حکومت کو نہیں بلکہ ہائبرڈ حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنے کا دن ہے۔ آج جس حکومت کو آپ اور میں مل کر وجود میں لانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، اس کے پاس اس ہائبرڈ دور سے باہر نکلے کا ایجنڈا ہوگا۔

اس حکومت کو بھی ایک مہنگائی زدہ معیشت ملے گی جوکہ شاید کم تو ہوجائے لیکن یہ تلوار پھر بھی لٹکی رہے گی۔ ایک بار پھر اس حکومت کو بڑھتی دہشتگردی اور یکے بعد دیگرے ہائبرڈ دور کے سیاسی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

آنے والی حکومت کے پاس مبہم مینڈیٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی محاذ پر کن اقدامات کی ضرورت ہے چاہے ان کے لیے حکومت کو انتخابی مہم کے کچھ وعدوں کو ایک طرف رکھنا پڑے۔ اسے اپنے ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے اور اور بدلے لینے کے کھیل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اسے جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھنا اور اپنی مثال سے دوسروں کو سکھانا چاہیے۔ جمہوریت کے اس گھر کو آہستہ آہستہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے جو ان دنوں تقسیم اور نفرت کی آگ سے جل رہا ہے۔

نئی حکومت کو آئین کو دوبارہ پڑھنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ آدھی رات کو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور امیدواروں اور دیگر افراد کا اغوا بند ہونا چاہیے۔ جبری گمشدگیاں ختم ہونی چاہئیں۔ مفاہمت کی سیاست کو چلنے دینا چاہیے۔ بدلہ لینے کی خواہش پر جمہوریت پر یقین کو ترجیح ملنی چاہیے۔

آیئے، میرے ساتھ آپ بھی اپنے ملک کے لیے ایک نئی شروعات کی خواہش میں اس لائن میں کھڑے ہوں۔ آئیے مل کر اپنا راستہ تلاش کرنے کا عزم کریں۔ اپنے اختلافات کو نہ ختم ہونے والی نفرتیں نہ بننے دیں۔ جمہوریت کو موقع دیں کہ وہ خود بھی ٹھیک ہو اور ہمارے لیے بھی بہتری کے راستے نکلیں۔ پیارے ووٹر، یہی آپ کے لیے اور اپنے لیے میری دعا ہے۔


اس تحریر کو انگریزی میں پڑھیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں