لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔
لکھاری پولیٹیکل اینڈ اینٹیگرٹی رِسک اینالسٹ ہیں۔

کسی ملک کی جمہوریت جانچنے کا بہترین طریقہ عام انتخابات ہیں۔ انہیں کے نتیجے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی جمہوریت زندہ رہے گی؟ پاکستان کا حالیہ بدنامِ زمانہ پولنگ کا نظام ایک سنگین مرض کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لیکن جمہوریت پسند بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ نوجوانوں ووٹرز کی شکل میں ہم نے اس مرض کا ممکنہ علاج تلاش کرلیا ہے۔

مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کا واضح مؤقف ہے کہ تمام تر انتخابی پابندیوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان ووٹرز کی بدولت کامیابی نصیب ہوئی۔ ٹک ٹاک کی ویڈیوز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انتخابی مہم نے اشرافیہ کے اداروں اور ان کے ذاتی مفادات کا پردہ چاک کیا ہے۔ احسن اقبال نے انتخابی نتائج کو ’روایتی سیاست کے خلاف نوجوانوں کی بغاوت‘ قرار دیا اور ’پرانی جماعتوں کو اس حوالے سے اپنے تنظیمی ڈھانچے میں جگہ بنانے‘ پر زور دیا۔

لیکن کیا جمہوریت کا زوال کسی طرح نسلی اعتبار سے منسلک ہے؟ دیکھا جائے تو کچھ حوالوں سے ان انتخابات میں نوجوانوں کا کلیدی کردار تھا کیونکہ ہماری موجودہ ملکی آبادی کی اوسط عمر 22.7 سال ہے اور اس سال 5 کروڑ 68 لاکھ اہل ووٹرز کی عمر 35 سال سے کم تھی۔ لیکن کیا ہمارے نوجوان ووٹرز مربوط انداز میں متحرک نظر آئے؟

انتخابات ہیجان خیزی اور گھٹن ختم کرتے ہیں۔ رواں سال کے انتخابات میں مزاحمت کا عنصر سامنے آیا جوکہ عمران خان کی انتشار کی سیاست سے مماثلت رکھتا ہے۔ کیا نوجوانوں نے اپنے حقِ رائے دہی کے ذریعے سیاسی کرداروں یا اداروں کی مخالفت کی؟ یا پھر ان کے ووٹ، پالیسیوں کی ترقی، اداروں کی تعمیر اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا اشارہ دیتے ہیں؟

لیکن یہ اشارے کسی امید کو جنم نہیں دیتے۔ سب سے پہلے تو نوجوانوں کے مہنگائی، تعلیم اور روزگار جیسے کلیدی مسائل کو سیاسی جماعتوں کے منشور میں وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔ خدمات کی فراہمی میں پس و پیش کے باعث نوجوان ووٹرز مایوس ہوں گے۔

بلاشبہ انہوں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا ہوگا لیکن گزشتہ چند سالوں سے نوجوان ووٹرز اپنے ووٹ کے ذریعے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ نظام سے کیا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں سامنے آیا کہ 67 فیصد نوجوان روزگار کے حصول کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ 2021ء اور 2022ء کے درمیان ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال بھی اس رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔

نوجوانوں کا انتخابی جوش بھی پاکستان کی سیاسی معیشت اور ساختی چیلنجز سے مطابقت نہیں رکھتا جسے جمہوری اقدار کی خاطر حل کیا جانا چاہیے۔ انتخابات سے پہلے وائس آف امریکا کے سروے میں سامنے آیا کہ 74 فیصد نوجوان ووٹرز فوج پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ 58 فیصد سپریم کورٹ کو دوسرا سب سے قابلِ اعتماد ادارہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح کے رجحانات سے مشکل سے ہی اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے سینٹر فار دی فیوچر آف ڈیموکریسی کی تحقیق ان انتخابات میں نوجوانوں کے رجحان پر روشنی ڈالنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ 2020ء یوتھ اینڈ سیٹسفیکشن ود ڈیموکریسی رپورٹ (جو عالمی رجحانات کا نقشہ کھینچتی ہے) میں سامنے آیا کہ 18 سے 34 سال کی عمر کے افراد کا جمہوریت پر سے سب سے زیادہ تیزی سے اعتماد کم ہورہا ہے جبکہ 1981ء اور 1996ء کے درمیان پیدا ہونے والے 55 فیصد لوگوں نے جمہوریت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ بے روزگاری، دولت کی غیرمساوی تقسیم اور ’معاشی اخراج‘ کی دیگر صورتوں سے نمٹنے میں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے کافی لوگوں نے جمہوریت کے حوالے سے یہ مؤقف اپنایا۔

رپورٹ میں ایک اور دلچسپ بات کی نشاندہی کی گئی کہ عمران خان جیسے پاپولسٹ (مقبول) ترین رہنماؤں والے ممالک نے اپنے انتہائی پاپولسٹ لیڈر کے دورِ حکومت کے ابتدائی چند سالوں کے دوران 35 سال سے کم عمر ووٹرز کے جمہوریت پر اعتماد میں 16 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ اس تبدیلی کا اثر اس بات سے قطع نظر تھا کہ وہ مقبول لیڈر بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا یا دائیں بازو سے۔ اور یہ پاپولسٹ سیاست کے پٌولرائزنگ اثرات کے باوجود ہوا جوکہ جمہوریت کے لیے ناگوار تصور کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پاپولسٹ سیاست دانوں کے دورِحکومت میں نوجوانوں کا جمہوریت پر اظہارِ اعتماد میں ہونے والا اضافہ قلیل المدتی تھا کیونکہ چار سال گزرنے کے بعد اس میں بتدریج کمی واقع ہوئی اور دو دفعہ حکومتی میعاد مکمل ہونےکے بعد تیزی سے اس اعتماد میں کمی دیکھنے میں آئی۔ دوسرے الفاظ میں پاپولسٹ یا تو اقتدار میں رہنے کے لیے آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرلیتے ہیں یا پھر وہ مرکزی دھارے کے سیاست دانوں کے طور پر کامیاب ہونے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، یوں وہ نوجوانوں کی حمایت سے محروم ہوجاتے ہیں اور جمہوریت کو ایک بار پھر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

عمران خان اور اپوزیشن میں ان کے حامیوں کا طرزِعمل نوجوانوں کے سیاسی محرکات پر اثرانداز ہوگا لیکن اندیشہ ہے کہ یہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ یہ تمام جماعتوں اور جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کے لیے شرمناک بات ہوگی کہ وہ سیاست میں نوجوانوں کی شرکت کو برقرار رکھنے کے لیے قابلِ قدر اقدامات نہ کریں۔

ہمیں پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے سیاسی رجحانات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے مزید ڈیٹا درکار ہے۔ اس ڈیٹا میں ووٹ ڈالنے کے علاوہ نوجوان سیاسی طور پر کس کس طرح متحرک ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا بھی شامل ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا کا استعمال، احتجاج سے لے کر صارفین کے بائیکاٹ تک سب کچھ شمار ہونا چاہیے کیونکہ اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ نوجوانوں کو کیسے ان سب سے جوڑا رکھا جائے۔ ہمیں اس بحث کو بھی اہمیت دینی چاہیے کہ نوجوان ایک ایسا بلاک نہیں ہے جو نئے خیالات کو تسلیم نہ کرے۔ نچلی سطح کے حالات نوجوان ووٹروں کی مختلف انداز میں ذہن سازی کرتے ہیں۔ نچلی سطح یعنی مقامی حکومتوں کے اداروں میں شرکت، ممکنہ طور پر نوجوانوں کو سیاست میں متحرک رکھنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں