لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

جب حماس اور اس کے اتحادیوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کیا تو یہ حملہ فوراً دنیا بھر کی شہ سرخی بن گیا۔ اس کے بعد جواباً غزہ کے لوگوں کے خلاف شروع ہونے والی نسل کشی کی بے رحمانہ مہم آج تک جاری ہے۔

تاہم مشکلات کا شکار بنیامن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ حملہ قدرت کی جانب سے بھیجا گیا تحفہ تھا کیونکہ سب سے پہلے تو حالتِ جنگ میں ہونے کی وجہ سے حکومت اپنے سیاسی مسائل کو نظرانداز کرسکتی ہے۔ جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ انہیں فلسطین کے مسئلے کا حتمی حل نکالنے کا موقع مل گیا۔

کسی قوم کو یوں اچانک سے صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جاسکتا اس لیے اس مسئلے کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لیے اسرائیل کو سب سے پہلے ایک بیانیہ تشکیل دینا تھا اور 7 اکتوبر کے حملے کو جواز بنا کر فلسطینیوں کو یہودیوں کا خون بہانے والے جلادوں کے طور پر دکھایا جانا تھا۔ لہٰذا 40 بچوں کے سر قلم کرنے (جس جھوٹ کو امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی بار بار دہرایا) کے ساتھ ساتھ حماس کے مزاحمت کاروں کی جانب سے خواتین کے جنسی استحصال کی خبریں عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بن گئیں۔

لیکن جلد ہی واضح ہوگیا کہ ان تمام صہیونی الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اگر مغربی میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا تو جلد ہی ظاہر ہوجاتا کہ ان دعووں کے کوئی ثبوت موجود نہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی ہی مثال لے لیجیے جس نے ایک خبر چلائی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان کے پاس گال عبدش نامی اسرائیلی خاتون کے مبینہ ریپ کی مصدقہ ویڈیو موجود ہے۔ تاہم گال عبدش کے والدین اور بہن سامنے آئے اور انہوں نے ان دعووں کو مسترد کیا جس کے بعد سامنے آیا کہ نیویارک ٹائمز کے ویڈیو ثبوت میں صرف خاتون کی شناخت ہوئی لیکن مبینہ ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی۔

نیویارک ٹائمز کے اس مضمون میں’زاکا’ کا بھی حوالہ دیا گیا۔ زاکا وہی اسرائیلی گروپ ہے جس نے بچوں کے سر قلم کرنے سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زاکا گروپ کے شریک بانی میشی زاہو پر ’مردوں، عورتوں اور بچوں سے جنسی استحصال کے خوفناک الزامات‘ عائد کیے گئے تھے جن کی وجہ سے اس نے خودکشی کرلی تھی۔ اسی مضمون کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے پوڈکاسٹ کا سلسلہ بھی شروع کیا جسے جلد ہی یہ واضح ہونے پر بند کردیا گیا کہ جس معلومات کی بنیاد پر اسے شروع کیا گیا وہ معلومات ہی غلط تھیں۔

تاہم ان دعووں کو آج کی تاریخ تک بار بار دہرایا جارہا ہے، حال ہی میں ہلیری کلنٹن نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کو ’دفاع کا حق‘ قرار دیا۔ سوشل میڈیا غلط معلومات پھیلانے کا ایک اور ذریعہ ہے جہاں اسرائیلیوں کی بڑی تعداد نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ حماس کا جنگجو خواتین یرغمالیوں کو جنسی استحصال کے لیے نکال رہا ہے۔ ترجمہ ہونے پر واضح ہوا کہ حماس کا جنگجو کہہ رہا تھا کہ ’نہیں نہیں، یہ خاتون یرغمالی ہے، اسے چھوڑ دو۔۔۔ اپنی جگہ پر واپس جاؤ‘۔

جب مایا ریجیو نامی اسرائیلی یرغمالی کو رہا کیا گیا تو اسی طرح کے الزامات اسرائیل کے حمایتی مراکشی صحافی مہدی بلادی نے بھی عائد کیے۔ مہدی بلادی نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ مایا ریجیو کی میڈیکل رپورٹس بتاتی ہیں کہ اسے کئی مردوں کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، البتہ اس دعوے کی تصدیق اس ہسپتال سے نہیں ہوئی جہاں اس کا علاج ہوا تھا اور نہ ہی مایا کے اہل خانہ نے اس دعویٰ کی تصدیق کی۔

حال ہی میں سینڈرا افراح نامی ایک کارکن نے فرانسیسی ٹی وی چینل ’سی نیوز‘ پر دعویٰ کیا کہ 13 سالہ یرغمالی کا 67 افراد نے ریپ کیا جس کے بعد اسے حمل گرانا پڑا۔ بعدازاں سینڈرا افراح نے ٹوئٹ کرکے اپنے اس جھوٹے دعوے کو واپس لیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ ’جذبات کے زیرِ اثر‘ تھیں۔ انہوں نے یہ تک واضح نہیں کیا کہ وہ اپنے کس دعوے کے لیے معذرت خواہ تھیں جبکہ ٹی وی چینلز سینڈرا کے جھوٹے دعوے کو بار بار دہراتے ہیں۔

اب بلآخر فلسطین میں ریپ اور منظم جنسی استحصال کے ثبوت سامنے آرہے ہیں لیکن مغربی میڈیا میں ان شواہد پر کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ اس بار مرتکب اسرائیل جبکہ متاثرین فلسطینی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے بے شمار واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ’زیرِحراست فلسطینی خواتین اور بچیوں کو مختلف اقسام کے جنسی استحصال‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ مرد اسرائیلی افسران خواتین کو برہنہ کرکے ان کی تلاشی لیتے ہیں۔ کم از کم دو فلسطینی خواتین قیدیوں کا مبینہ طور پر ریپ کیا گیا جبکہ دیگر کو مبینہ طور پر ریپ اور جنسی تشدد کی دھمکیاں دی گئیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینی خواتین کی ’توہین آمیز حالات‘ میں تصاویر بھی آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں۔

فلسطینی خاتون اور 5 بچوں کی والدہ لاما خاطر کو نومبر میں اسرائیل کی جانب سے رہا کیا گیا، وہ بتاتی ہیں کہ پہلی تفتیش میں ہی انہیں ریپ اور خاندان کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئیں۔ وہ اور دیگر خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال کیا گیا جبکہ انہیں سینیٹری پیڈز جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا گیا۔

فلسطینی کارکن احد تمیمی کو بھی زیرِحراست اسی طرح کے حالات کا سامنا رہا لیکن شاید اپنے ہائی پروفائل اسٹیٹس کی وجہ سے انہیں زیادہ برے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یقینی طور پر اسرائیلی ان کی عمر کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ عمر کبھی بھی ان کے لیے رکاوٹ نہیں رہی۔

2011ء میں فلسطینی این جی او نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے 15 سالہ لڑکے کو ریپ کا نشانہ بنائے جانے کی شکایت کی۔ اسرائیل نے اس کا ردعمل کچھ یہ دیا کہ این جی او کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے دفاتر سیل کردیے گئے۔

اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں ان تمام الزامات کی تصدیق کی گئی ہے جو فلسطینی برسوں سے لگاتے آرہے ہیں کہ نکبہ سے لے کر اب تک فلسطینیوں کو محکوم بنانے کے لیے اسرائیل جنسی استحصال اور تذلیل کا سہارا لیتا ہے۔ شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل کے سابق فوجیوں نے باتیں کیں کہ کیسے انہوں نے فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔

جب بات اسرائیل پر آتی ہے تو ہر الزام ایک اعتراف ہوتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں