روس نے یکم مارچ سے پیٹرول کی برآمدات پر 6 ماہ کی پابندی عائد کردی ہے۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی کی جانب سے پیٹرول برآمد کرنے پر پابندی کی خبر روسی میڈیا ’آر بی سی‘ نے جاری کی تاہم بعدازاں ڈپٹی پرائم منسٹر الیگزینڈر نواک کے ترجمان نے معاملے کی تصدیق کر تے ہوئے بیان جاری کردیا۔

روسی میڈیا گروپ آر بی سی نے ایک نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی وزیراعظم الیگزینڈر نواک نے 21 فروری وزیراعظم میخائل میشوسٹن کو خط لکھ پر پیٹرول کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی تھی جو انہوں نے منظور کرلی، ایک علیحدے ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔

آر بی سی کے مطابق نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ضرورت سے زیادہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ گھریلو مارکیٹ میں قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

15-17 مارچ کے صدارتی انتخابات سے قبل دنیا کے سب سے بڑے گندم برآمد کنندہ میں گاڑی چلانے والوں اور کسانوں کے لیے گھریلو پیٹرول کی قیمتیں ایک حساس معاملہ ہیں، جب کہ حالیہ مہینوں میں کچھ روسی ریفائنریز یوکرین کے ڈرون حملوں کا نشانہ بھی بنی ہیں۔

دو سال سے جاری روس-یوکرین تنازعے کے پیش نظر دونوں ملکوں نے سپلائی لائنز اور لاجسٹکس میں خلل ڈالنے اور اپنے مخالفین کے حوصلے پست کرنے کے لیے ایک دوسرے کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے۔

تیل، تیل کی مصنوعات اور گیس کی برآمدات روس کی اب تک کی سب سے بڑی برآمدات ہیں، جو روس کی 1 ہزار بلین ڈالر کی معیشت کے لیے غیر ملکی کرنسی کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں