ماہر علی
ماہر علی

اتوار کو 25 سالہ امریکی فضائیہ کے سینیئر ایئرمین ایرون بشنیل نے واشنگٹن میں واقع اسرائیلی سفارتخانے کے باہر ویڈیو اسٹریمنگ کرتے ہوئے خود پر ایندھن ڈالا اور ’فری فلسطین‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے خود کو آگ لگالی۔

واقعے سے کچھ وقت قبل سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اپنی ویڈیو میں ایرون نے واضح کیا کہ وہ ’مزید (فلسطینیوں کی) نسل کشی میں شریک نہیں ہوں گے‘۔

ویڈیو میں مزید کہا کہ ’اب میں فلسطینیوں پر ہونے والے تشدد پر شدید احتجاج کرنے والا ہوں لیکن میرا یہ اقدام قابض افواج کی جانب سے فلسطینیوں پر ہونے والے تشدد کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں یہ نارمل ہوگا‘۔

فیس بُک پر اپنی آخری پوسٹ میں ایرون نے کہا، ’ہم میں سے بہت سے لوگ خود سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر میں غلامی کے دور میں زندہ ہوتا تو کیا کرتا؟ یا جم کرو اسمتھ کے دور میں؟ یا نسل پرستی کے دور میں؟ میں کیا کرتا اگر میرا ملک نسل کشی کا مرتکب ہوتا؟ اس کا جواب ہے، ہاں آپ ابھی نسل کشی کررہے ہیں‘۔

امریکی خفیہ ایجنسیز کے ایجنٹس کی جانب سے آگ بجھائے جانے کے 7 گھنٹوں بعد ایرون بشنیل زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔ اگر وہ جنگ مخالف اقدامات کو اپنی جان لینے پر فوقیت دیتے تو شاید اس المناک واقعے سے بچا جاسکتا تھا۔ امریکی مین اسٹریم میڈیا ہاؤسز اس واقعے کو نورمین موریسن کے واقعے سے متوازی قرار دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ نورمین موریسن نے تقریباً 6 دہائی قبل پینٹاگون کے سامنے خودسوزی کی تھی۔

ان کی خودسوزی کو امریکی شاعر ایڈرین مچل کے ان الفاظ نے امر کردیا تھا، ’اس نے یہ واشنگٹن میں کیا جہاں سب اسے دیکھ سکیں/ کیونکہ/ لوگوں کو آگ لگائی گئی/ ویتنام کے ان تاریک حصوں میں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے۔۔۔ اس نے اپنے کپڑوں/ اپنے پاسپورٹ، اپنی گلابی جلد کو آگ لگائی/ جھلسی ہوئی نئی جلد خود پر چڑھا لی/ اور ویتنام کا باسی بن گیا‘۔

ایرون بشنیل کی ’جُھلسی ہوئی نئی جلد‘ نے اسے غزہ کے فلسطینی جیسا بنادیا جہاں اسرائیلی ظلم سے بچ جانے والے نومولود بچے اب بھوک کی شدت سے دم توڑ رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے نسل کشی محض ’کچھ زیادہ‘ ہے۔ انہیں گزشتہ روز امریکی ریاست مشی گن میں ڈیموکریٹک پارٹی پرائمری جہاں کچھ یہودیوں سمیت بااثر ڈیموکریٹس، عرب اور مسلم قانون سازوں سے لے کر متعدد ٹریڈ یونینز اور ترقی پسندوں تک سب موجود تھے، ان کے سامنے ممکنہ احتساب کا سامنا کرنا پڑا ساتھ ہی وہ انتظامیہ سے خود کو اسرائیل سے دور کرنے کا مطالبہ بھی کرتے نظر آئے۔

اگرچہ اس کا امکان موجود نہیں لیکن میشی گن کے ’ان کمیٹٹ‘ ووٹوں (اس میں ووٹر بیلٹ پر پارٹی کو ووٹ دیتا ہے لیکن پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا، بیلٹ میں ان کمیٹٹ کا آپشن موجود ہوتا ہے) کی وجہ سے بائیڈن کی حمایت میں کمی آئے گی اس کے باوجود بھی یہ امکان کم موجود ہے کہ وائٹ ہاؤس میں موجود صیہونیت کے دعویدار اپنا مؤقف تبدیل کریں گے۔ یہ دعویدار ایک طرف بنیامن نیتن یاہو کی حکومت پر قتل و عام کی سرسری سی تنقید کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ قتل وغارت اور تباہی کے لیے بڑے پیمانے پر اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔

امریکا کی پراکسی وار میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور ہے کیونکہ یوکرین میں روس کے خلاف پراکسی وار جو دو سال قبل ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے کیے گئے حملے سے کئی سال پہلے سے جاری تھی، اس میں عام شہری اموات (حالانکہ عام شہریوں کی ہلاکتیں کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں) کی تعداد اس سے کئی گنا کم ہے جو اسرائیل کی صرف 5 ماہ کی وحشیانہ کارروائیوں میں سامنے آئی ہے۔

اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یوکرین فلسطین کے ساتھ ہمدردی کرے گا تو یہ گمان غلط ہے۔ اسرائیل کی نسلی قوم پرستانہ سازشوں اور نسل کشی کے رجحانات سے متعلق اپیل بالخصوص نیو نازیوں میں ان کا مؤقف مضبوط ہے۔ نیو نازیوں کا گزشتہ 30 سالوں سے یوکرین کی فوجی اور سویلین اسٹیبلشمنٹ میں اہم کردار رہا ہے اور یہ ان لوگوں کے ذریعے کام کرتے ہیں جو کیف کو آمریت (یہاں روس) کے خلاف ایک جمہوری طاقت کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن ولادیمیر پیوٹن صرف آمر نہیں ہیں۔ ان کے قتل و غارت مچانے کے رجحانات اس سے قبل واضح ہوچکے تھے جب مغرب نے انہیں نیٹو اور دیگر فورمز پر قابلِ اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھنا چھوڑا۔ چیچنیا میں ان کی بربریت کو فرضی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی کڑی کے طور پر نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن میخائل گورباچوف نے جن زبانی وعدوں پر بھروسہ کیا تھا، ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرد جنگ کے فوجی اتحاد میں سوویت یونین کی شمولیت کے بعد، امریکا کی نظر جارجیا اور یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر تھی۔

بہرحال دو سال قبل کسی اشتعال انگیزی نے پیوٹن کو مجبور نہیں کیا کہ وہ فوری طور پر خود کو جنگ میں دھکیل دیں۔ کیف پر قبضہ کرنے جیسے ان کے مقاصد میں پیوٹن کی کامیابی مشکل ثابت ہوئی۔ گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت کا ہر بازو بری طرح خرابی کا شکار ہے جبکہ یہ خوش آئند ہے کہ ماسکو کی فوجی طاقت ان کی اپنی توقعات کے مطابق نہیں رہی۔ یوکرین کی افواج کی مضبوط مزاحمت نے روسی افواج کی پیش قدمی کو محدود کردیا۔ لیکن پچھلے سال یوکرین کی جانب سے کی گئی مزاحمت کی کوشش (جسے ’بالی ووڈ کاؤنٹراوفنسیو‘ بھی کہا جاتا ہے) کو ناکامی کا سامنا رہا۔

30 سالوں سے سی آئی اے کے یوکرین کے سیکیورٹی ڈھانچے میں الجھے رہنے بالخصوص 2014ء کے پریشان کُن واقعات کے باوجود حال میں روس نے امریکا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔ سرپل کو روکنے کے لیے دونوں طرف سے سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہوگی لیکن اس وقت سفارت کاری کوئی آپشن نہیں۔

ولادیمیر پیوٹن کو راستے سے ہٹانا یا دوسرے طریقے سے ان کی حکومت کو ختم کرنا کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی نہیں ہے۔ لیکن کیف کو اس امید پر اسلحہ فراہم کرنا کہ روس اپنا ’خصوصی فوجی آپریشن‘ روک دے گا، خام خیالی ہے۔

اگر اسرائیل اور حماس مذاکرات کرسکتے ہیں تو ماسکو اور کیف کے درمیان مذاکرات کیوں نہیں ہوسکتے، بشرط یہ کہ امریکا راستے کی رکاوٹ نہ بنے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں