کریملن نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں جو تبصرے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سرکاری میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیے ہیں وہ ان کے استعمال کے کے حوالے سے خطرہ نہیں ہیں اور امریکا پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کر رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز شائع ہونے والے انٹرویو میں کہا تھا کہ روس، تکنیکی طور پر جوہری جنگ کے لیے تیار ہے اور اگر امریکا نے یوکرین میں فوج بھیجی تو اسے تنازع میں نمایاں اضافہ تصور کیا جائے گا۔

پوٹن کے الفاظ پر تبصرہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ واشنگٹن سمجھتا ہے کہ روسی رہنما ماسکو کے جوہری نظریے کو بحال کر رہے ہیں، ساتھ ہی روس پر یوکرین کے تنازع کے دوران ’لاپرواہ اور غیر ذمہ دارانہ‘ جوہری بیان بازی کا الزام لگایا۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کو کہا کہ ولادیمیر پیوٹن محض اس موضوع پر ایک صحافی کے سوالات کا جواب دے رہے تھے اور پہلے سے معروف حالات کو دوبارہ بیان کر رہے تھے جن میں روس کو نظریاتی طور پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

دمتری پیسکوف نے اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ روسی صدر نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ یوکرین میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خیال ان کے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔

وائٹ ہاؤس کے تبصروں کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے نے کہا کہ ’یہ جان بوجھ کر بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لے رہا ہے۔ ولادیمیر پوٹن نے اس انٹرویو میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں کوئی دھمکی نہیں دی۔ صدر صرف ان وجوہات کے بارے میں بات کر رہے تھے جو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو ناگزیر بنا سکتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ وجوہات ہیں جو ہماری متعلقہ دستاویزات میں بیان کی گئی ہیں، جو پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ مغرب میں ہر کوئی جان بوجھ کر ان کے الفاظ پر توجہ دینے میں ناکام رہا کہ لڑائی کے دوران پیدا ہونے والے مختلف حالات کے باوجود، (یوکرین میں) ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنا ان کے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا۔‘

کریملن کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ سیاق و سباق کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے اور صدر ولادیمیر پیوٹن کو سننے کے لیے تیار نہ ہونا ہے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں