جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے گزشتہ روز سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی کارروائیوں میں واضح خامیوں پر روشنی ڈالی، جس میں خاص طور پر سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف شکایات یا ریفرنسز کو سماعت کے لیے مقرر کرنے، فہرست میں شامل کرنے اور سماعت کے عمل میں نقائص کا تذکرہ کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز جاری کردہ ایک اختلافی نوٹ میں جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے لکھا کہ یہ مسائل نہ صرف کونسل کی ذمہ داریوں کی مؤثر ادائیگیوں میں رکاوٹ ہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی خطرہ ہیں، جس کے نتیجے میں اس اعلیٰ ترین عدالتی ادارے پر عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔

اُن کا یہ اختلافی نوٹ 19 فروری کو سپریم کورٹ کے 4:1 کے فیصلے کا حصہ ہے جس میں کہا گیا تھا کہ بدعنوانی پر اعلیٰ عدالت کے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے زیر التوا کارروائی کسی جج کے استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں ختم نہیں ہوگی، جسٹس حسن رضوی فیصلے سے اختلا فک کرنے والے واحد جج تھے۔

جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں مخصوص شکایات کو چننے کا رجحان رہا ہے اور جواب دہندہ جج کے ریٹائر ہونے کی وجہ سے بہت سی شکایات ختم ہوجاتی ہیں۔

علاوہ ازیں ’سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری 2005‘ چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) اور چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کو موصول ہونے والی معلومات پر بحث اور انکوائری کے لیے کونسل کا اجلاس بلانے کے ل بلا روک ٹوک اختیارات دیتا ہے۔

جسٹس حسن رضوی نے لکھا کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار کی انکوائری 2005 میں اس کے مطابق ترمیم کرنے کی ضرورت ہے لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کو کوئی خاص ہدایت دینا نامناسب ہوگا۔

تاہم یہ توقع کی جاتی ہے کہ کونسل شکایات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے، فہرست میں شامل کرنے اور سماعت کے لیے واضح اور شفاف طریقہ کار کو نافذ کرے گی تاکہ غیر ضروری تاخیر یا ہیرپھیر کو روکا جاسکے۔

جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اپیل کنندگان کی شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف دائر کی گئی شکایت پر کارروائی شروع کرنے سے انکار کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔

اس کے بعد آرٹیکل 209 کی تشریح کی گئی جوکہ اس عدالت کے 2 رکنی بینچ نے غیرقانونی فیصلے میں شامل کیا، اس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 209 کا اطلاق ایسے شخص پر نہیں ہوتا جو سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر یا مستعفی ہو چکا ہو۔

ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت اور عافیہ شہربانو کی جانب سے موجودہ اپیلیں مقررہ مدت کے اندر دائر نہیں کی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں