رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ (جولائی تاجنوری) کے دوران پاکستان کا مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.6 فیصد تک ہو گیا، جس کی وجہ سود کی ادائیگیوں کا 60 فیصد تک بڑھنا ہے، اس سے قرض کی پائیداری اور حکومتی فنانس پر دباؤ کے خطرات بڑھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری مارچ کی ماہانہ اقتصادی رپورٹ میں مہنگائی میں کمی کی توقع ظاہر کرتے ہوئے حکومت اور مرکزی بینک پر زور دیا گیا کہ معاشی بحالی کے لیے مالیاتی مضبوطی اور محتاط پالیسی جاری رکھی جائے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی، بھاری شرح سود کے سبب اسٹیٹ بینک اور کارپوریٹ اداروں کے بہتر منافع کی بدولت اہداف سے زائد بنیادی سرپلس کو حاصل کرنے میں مدد ملی۔

وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران مجموعی خسارہ جی ڈی پی کے 2.6 فیصد (27 کھرب 21 ارب روپے) تک پہنچ گیا، جس کا حجم گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 2.3 فیصد یا 19 کھرب 74 ارب روپے رہا تھا، مزید کہا کہ بنیادی اخراجات کو محدود رکھنے کے نتیجے میں بنیادی سرپلس گزشتہ برس کے 945 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 19 کھرب 39 ارب روپے رہا۔

مالی سال 2024 میں جولائی تا جون کے دوران کل اخراجات 49 فیصد بڑھ کر 75 کھرب 32 ارب روپے ہو گئے، جو گزشتہ برس 50 کھرب 58 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا تھا، کرنٹ اخراجات 45 فیصد بڑھے جس کی وجہ سود کی ادائیگیوں میں 60 فیصد اضافہ ہونا ہے، اس کے برعکس غیرسودی کرنٹ اخراجات میں نمو 26 فیصد رہی۔

دوسری جانب، اگر آمدنی کو دیکھا جائے تو خالص وفاقی محصولات زیر جائزہ مدت کے دوران 57 فیصد اضافے سے 43 کھرب 79 ارب روپے ہو گئیں، جن کا حجم گزشتہ برس 27 کھرب 98 ارب روپے رہا تھا، اس اضافے کی وجہ نان ٹیکس ریونیو کا نمایاں طورپر بڑھنا ہے، جو 105 فیصد اضافے کے بعد 21 کھرب 40 ارب روپے پر پہنچ گیا، اس کا حجم گزشتہ برس 10 کھرب 46 ارب روپے رہا تھا۔

ایف بی آر کے خالص محصولات 30 فیصد بڑھ کر 58 کھرب 31 ارب روپے تک جاپہنچے، جو گزشتہ برس 44 کھرب 94 ارب روپے رہے تھے، جبکہ مالیاتی خسارہ 38 فیصد بڑھ گیا۔

بنیادی سرپلس میں بہتری کے باوجود مالی خسارے میں اضافہ حکومتی مالیات پر مستقل دباؤ کو ظاہر کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں