لکھاری سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔
لکھاری سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں۔

شانگلہ میں چینی انجینئرز کی گاڑی پر دہشت گردانہ حملے کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ چینی کمپنیوں نے ابتدائی طور پر تین اہم ہائیڈرو پاور پروجیکٹس پر کام روک دیا ہے جن میں داسو ڈیم، دیامر بھاشا ڈیم اور تربیلا ڈیم کو 5ویں بار توسیع دینے کا کام شامل ہے۔

اس حملے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگر انفرااسٹرکچر کے اہم منصوبوں کے کام میں رکاوٹ کے علاوہ بات کریں تو اس حملے نے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے اعتماد کو بری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔ رپورٹس سے اشارے مل رہے ہیں ان میں سے کچھ حفاظتی خدشات کے باعث ملک چھوڑنے پر غور کررہے ہیں۔

حکومتِ پاکستان بار بار ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا عہد کرتی نظر آرہی ہے۔ تاہم اس حالیہ واقعے نے چینی شہریوں کےاعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ چین کا سوشل میڈیا بڑھتی ہوئی پریشانی کی عکاسی کرتا ہے جہاں چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی اقدامت سخت کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

جب بھی ملک میں دہشتگردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو میڈیا، سیکیورٹی ماہرین، حتیٰ کہ ریاستی ادارے اس واقعے کے مجرمان، ان کے مقاصد اور ایسے دہشت گرد گروہوں کے بارے میں بڑے پیمانے پر بیانات دینے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں جو اس طرح کے واقعات میں ممکنہ طور پر ملوث ہوسکتے ہیں۔

پہلا اور سب سے معروف عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حملے میں بیرونی عناصر ملوث ہیں بالخصوص وہ عناصر جو چینی شہریوں یا سی پیک سے متعلق منصوبوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے تین انتہاپسند گروپس کے نام ذہن میں آتے ہیں، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور داعش خراسان۔ ان تینوں دہشتگرد گروپس کے مخصوص آپریشنل اڈے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ کافی حد تک ان گروپس کی کارروائیاں اس پر انحصار کرتی ہیں کہ ان کا اثرورسوخ کن علاقوں میں ہے۔

شانگلہ حملے کے بعد بھی یہی معاملہ ہوا۔ حملے کے فوراً بعد ان تینوں گروپس کے نام سامنے آئے۔ ٹی ٹی پی کو ممکنہ مرکزی کردار بتایا گیا کیونکہ 2021ء میں اس کے ایک کمانڈر کو کوہستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کا ماسٹرمائنڈ قرار دیا گیا تھا۔ میڈیا میں ان چند ٹی ٹی پی کمانڈرز کے نام گردش کررہے ہیں جو ممکنہ طور پر اس حملے میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ تیزی سے نتائج اخذ کرنے کی ہماری روایت سے تحقیقات میں خلل پڑتا ہے جبکہ سلامتی کی صورتحال سے نمٹنے کی ریاست کی صلاحیت پر بھی یہ اثرانداز ہوتا ہے۔

پاکستان میں عسکریت پسندی کا منظرنامہ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں لیکن متنوع ضرور ہے۔ نظریات، سماجی-سیاسی عوامل اور گروپ کی حرکیات تمام مقامی سیاق و سباق کے مطابق ہیں۔ انسدادِ دہشتگردی کی کسی بھی تفتیش میں مقامی سیاق و سباق اور حرکیات، وسیع تر نظریاتی اور سیاسی محرکات سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں شانگلہ، زیریں و بالا کوہستان اور بٹاگرم کے اضلاع اور ملحقہ گلگت بلتستان کا ضلع دیامر مذہبی، سماجی، قبائلی اور ثقافتی اقدار کے اعتبار سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یہاں سے غیرت کے نام پر قتل، لڑکیوں کے اسکولز کو نذرِآتش کرنے اور شیعہ زائرین کے قتل عام کی خبریں تواتر سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں یہ علاقہ ترقیاتی کاموں میں مصروف چینی شہریوں پر حملے کی وجہ سے بدنام ہورہا ہے۔

اس خطے میں دیوبندی مکتبہ فکر غالب ہے جوکہ قدامت پسند سماجی روایات کے ساتھ منسلک ہے۔ نتیجتاً یہ امتزاج مقامی لوگوں کے دیوبندی مدارس کی طرف جھکاؤ کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ اور عسکریت پسند تنظیموں کے درمیان متواتر روابط کا بھی باعث بنا ہے۔ مقامی لوگ ان مذہبی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں مالی سہولیات، افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ داسو اور بھاشا ڈیموں کے لیے بھاری معاوضے کی رقم وصول کرنے سے پہلے اس خطے میں لکڑی کی اسمگلنگ پر زور تھا۔

اس خطے میں انتہاپسند رجحانات دیگر ہمسایہ خطوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ شیعہ مخالف جذبات، برادری میں خونریزی اور نسلی برتری کا احساس یہاں جڑ پکڑ چکا ہے۔

اس خطے میں حکومتی معاملات چلانا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ سیکیورٹی اداروں، بیوروکریسی اور علاقے کی سیاسی قیادت نے قوانین اور قواعد پر سمجھوتہ کرتے ہوئے انتظامی معاملات چلانے کی کوشش کی ہے۔ حتیٰ کہ انتظامیہ نے مذہبی اسکالرز کی موجودگی میں مقامی جرگوں کے ذریعے بڑے تنازعات حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں مجرمان کے ساتھ نرمی برتی گئی اور یوں بہت سے انتہاپسند عناصر نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔

مجاہدین گلگت بلتستان اور کوہستان (ایم جی بی) اس کی اہم مثال ہیں۔ اس گروپ نے کوہستان اور دیامر اضلاع میں متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔

اکتوبر 2022ء میں اس گروپ نے گلگت بلتستان کے وزیر کو یرغمال بنایا۔ انہوں نے دہشتگردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جن میں سے کچھ 2013ء کو نانگا پربت بیس کیمپ میں ہونے والے دہشتگرد حملے میں بھی ملوث تھے جس میں غیرملکی کوہ پیماؤں کو نشانہ بنایا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے وزیر کی رہائی کے بدلے گلگت بلتستان میں خواتین کی اسپورٹس کی سرگرمیوں کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے روڈ اس لیے بلاک کیے کیونکہ ریاست 2019ء کے معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہی اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے مطالبات پورے کرنے کے لیے حکومت کو 10 دن کا الٹی میٹم بھی دیا۔

بلاشبہ یہ گروپ انتہاپسند ہے لیکن یہ اس علاقے میں موجود واحد گروپ نہیں ہے۔ ایم جی بی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کا ٹی ٹی پی اور پنجاب کے دیگر مقامی فرقہ وارانہ عناصر کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ جیسا کہ 2022ء کے بابوسر پاس ناکہ بندی میں ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خارجی گروپس مقامی عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہیں۔ عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی ریاست کی تاریخ نے انہیں مزید حوصلہ دیا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر کے اغوا کے واقعے میں انتظامیہ نے علاقے میں لڑکیوں کے کھیلوں پر پابندی عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسی طرح انتہا پسندوں کے مطالبے پر 2019ء کے معاہدے میں مبینہ طور پر کچھ اسلامی قوانین کے نفاذ کی اجازت بھی دی گئی۔

مختلف بحرانوں میں مذہبی اسکالرز کو ثالثی بنانا ریاست کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ کچھ اسکالرز عسکریت پسندوں کے مطالبات سے ہمدردی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسندوں کو جزوی رعایتیں ملتی ہیں جوکہ عسکریت پسندوں اور مذہبی شخصیات دونوں کے لیے ’ون-ون‘ کی صورتحال یعنی یہ دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ علاقے جو بظاہر ترقیاتی منصوبوں سے فائدہ حاصل کریں گے، یہاں چینی شہریوں پر حملے کے واقعات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟

اگرچہ اس علاقے میں مقامی لوگ ترقیاتی کاموں کے اتنے زیادہ خلاف نہیں لیکن بہت سے مقامی افراد یہ مانتے ہیں کہ ڈیمز اور وسیع سڑکوں کی تعمیر شہرکاری، خواتین کی آزادی اور جدیدیت کو بڑھاوا دے گی جوکہ آگے چل کر ان کے مذہب اور ثقافت کے لیے خطرات پیدا کرسکتا ہے۔ غالب تاثر یہی ہے کہ زیادہ تر مقامی لوگ معاوضے کی رقم اور روزگار کے مواقع ملنے کی وجہ سے خوش ہیں۔

تاہم اس سے مذہبی انتہا پسندی کا عنصر کم نہیں ہوتا۔ کچھ مقامی لوگ سنکیانگ میں ایغور کمیونٹی کے ساتھ ہمدردی بھی کرسکتے ہیں جبکہ کچھ اپنی سرزمین پر غیرملکی شہریوں کی موجودگی کو ناپسند بھی کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل خطے میں چینی شہریوں کے بارے میں منفی تاثرات کو فروغ دینے کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس کی ایک مثال گزشتہ سال داسو ڈیم سائٹ پر ایک چینی باشندے پر توہین مذہب کے الزام کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس واقعے نے عندیہ دیا کہ مستقبل میں اس حوالے سے کشیدگی پھیل سکتی ہے۔

اگرچہ یہ گروپس انفرادی طور پر بڑے پیمانے پر دہشتگرد حملے کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں لیکن ماضی کے واقعات جیسے شیعہ زائرین کا قتل اور نانگا پربت میں غیرملکی کوہ پیماؤں پر حملہ ان گروپس کی پُرتشدد صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں ان کے ہم خیال گروپس کی حمایت سے انہیں تقویت ملتی ہے۔

ان جذبات کو قابو کرنے کے لیے مقامی اور بیرونی مذہبی عناصر کو آؤٹ سورس کرنے کی حکومتی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناؤ کو کم کرنے کے لیے مزید جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں