اسلامی نظریاتی کونسل۔ فائل فوٹو۔
اسلامی نظریاتی کونسل۔ فائل فوٹو۔

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے مئی میں کیے جانے والے فیصلے جسکے مطابق ڈی این اے کو ریپ کیسز میں مرکزی شہادت کے طور استعمال نہیں کیا جاسکتا، پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ پیشرفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب فیصلے کے بعد کونسل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کونسل اس حوالے سے حتمی فیصلہ جمعرات کو کرے گی۔

اس سے قبل کونسل نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ڈی این اے کو ریپ سے متعلق مقدمات میں صرف اس وقت استعمال کیا جاسکے گا جب جرم کی شہادت دینے کے لیے چار افراد موجود ہوں۔

دوسرے الفاظ میں ڈین این اے کو صرف مرکزی شہادت کو توثیق کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

اسطفیصلے کو سول سوسائٹی اور قانونی حلقوں جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کونسل کے ممبر اور پاکستان علماء کونسل کے سربراہ علامہ طاہر اشرفی کا کہنا تھا 'کونسل ڈی این اے ٹیسٹ کو مرکزی شہادت کے طور پر استعمال کرنے سے متعلق زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم مقدموں کی سست رفتار اور قانون کا کمزور عمل درآمد اس حوالے سے واحد رکاوٹ ہے'۔

ان کے اس بیان کی علامہ امین شہیدی نے بھی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی این اے ریپ کرنے والے کی شناخت کا اہم ذریعہ ہے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے (ایچ آر سی پی) نے کونسل کے پچھلے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ ریپ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ صرف لاہور میں 32 گینگ ریپ سمیت  آبرو ریزی کے 113  کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق کونسل نے توہین رسالت کے قوانین میں تبدیلی کی تجویز دی ہے جس کے مطابق اس کی تہمت لگانے والے کے لیے بھی موت کی سزا سفارش کی گئی ہے۔

علامہ طاہر اشرفی نے اے ایف پی کو بتایا 'تمام مذہبی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کی جائے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ممبران کی سفارشوں کے پیش نظر کونسل نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تہمت لگانے والے شخص کے لیے بھی موت کی سزا تجویز کی جائے۔

انہوں کہا کہ قوانین کی تبدیلی کے بعد کوئی شخص قانون کے غلط استعمال کی ہمت نہیں کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ترمیم سے قانون کی تنقید کرنے والے بھی خاموش ہوجائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں