ڈینگی سے متاثرہ سوات میں ایمرجنسی نافذ
اسلام آباد: ایک ماہ کے دوران ڈینگی بخار کے تقریباً 5000 کیس سامنے آنے کے بعد سوات میں صحت کے شعبے میں ہنگامی حالت کا اعلان کردیا گیا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک خاص مچھر سے پھیلنے والے اس وائرس سے خیبر پختونخوا میں انیس اگست کے بعد سے سترہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے چودہ اموات سوات میں ہوئیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس کے مریضوں کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈینگی کھڑے پانی میں پرورش پانے والے ایک مچھر سے ہوتا ہے اور یہ عموماً دن کے وقت لوگوں کو کاٹتا ہے۔ یہ مچھر ایڈیس ایجپٹائی صاف پانی میں پروان چڑھتا ہے۔
مچھر کاٹنے سے منتقل ہونے والے وائرس کے بعد تیز بخار،جوڑوں میں درد اور غشی کی کیفیت بھی ہوسکتی ہے۔
سوات سی ضلعی افسر صحت ڈاکٹر عبدالخالق نے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا: اس بیماری سے اب تک چودہ افراد کا انتقال ہوا ہے۔ 4934 مریضوں کے تجزیے مثبت نکلنے کے بعد ہم نے ضلع بھر میں صحت کی ہنگامی حالت کا اعلان کردیا ہے۔
خالق نے اس وائرس کو ایک وباء قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے۔
'ڈینگی لاروا گھروں کے اندر باہر،گلیوں اور دیگر تمام مقامات پر پایا گیا ہے'۔
مقامی حکام کا خیال ہے کہ یہ لاروا لاہور سے پرانے ٹائروں کی ایک کھیپ میں بھرے پانی کے ذریعے یہاں پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ ستمبر2011 میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں اس وباء کے پھوٹنے سے 362افراد ہلاک اوراکیس ہزار سے زائد متاثر ہوئے تھے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ڈینگی پر پاکستان میں مرکزی ڈاکٹر قطب الدین کاکڑ نے سوات میں اس وائرس سے 14 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او اس حوالے سے مقامی حکام سے رابطے میں ہے۔
'ہم انہیں مرض کو کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تکنیکی معاونت بھی فراہم کر رہے ہیں'۔
ڈبلیو ایچ او ڈینگی وائرس کی اقسام، زیادہ متاثرہ علاقوں کی شناخت اور دواؤں کا چھڑکاؤ میں مدد کر رہا ہے۔
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کے رش پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں جو یہاں صحت کی سہولتوں اور بنیادی ادویات کی عدم فراہمی کی شکایت کرتے ہیں۔
ایک مریض کے رشتہ دار حامد خان نے اے ایف پی کو بتایا: ہمیں بستر اور ادویات میسر نہیں۔ بعض اوقات خون کے تجزیے کیلئے نجی لیبارٹریوں میں جانا پڑتا ہے۔
'میرے بھائی کو بخار ہے اور ہمیں خدشات ہیں کیونکہ اس کے خون کا تجزیہ مثبت آیا ہے'۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈینگی کا کوئی مخصوص علاج نہیں لیکن شدید حالت میں مناسب طبی سہولیات سے موت کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
مینگورہ کے بڑے سیدوشریف ہسپتال میں حکام نے بتایا کہ ڈینگی کے مریضوں کیلئے سو بستروں کا خصوصی وارڈ بنایا گیا ہے۔
شعبہ صحت کے ایک سینیئر اہلکار شفیع اللہ خان نے بتایا کہ اس وائرس کی روک تھام کے لیے فیومیگیشن سمیت متعدد حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں۔
'رضاکار مقامی شہریوں کو متحرک کرنے کے علاوہ گھر گھر آگاہی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں'۔
خان نے بتایا کہ ڈینگی شمال مغرب کے دوسرے اضلاع میں بھی پھیلتا جا رہا ہے۔
خان کے مطابق، سوات کے علاوہ دیگر نو اضلاع سے اب تک ڈینگی کے تین سو مریض سامنے آ چکے ہیں، جن میں سے تین چل انتقال کرگئے ہیں۔