نائجیریا: بوکو حرم کے حملے میں 87 افراد ہلاک

بنی شیک: شمال مشرقی نائجیریا میں فوجی وردیوں میں ملبوس اور بھاری ہتھیاروں سے مسلح بوکو حرم کے شدت پسندوں نے حملہ کر کے کم از کم 87 افراد کو ہلاک کر دیا۔
سرکاری حکام نے منگل کی رات ہونے والے اس حملے میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
مقامی افراد کے مطابق باغیوں نے حملے میں متعدد گھروں اور عمارتوں کو بھی آگ لگائی۔
شمال مشرقی ریاست بورنو میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی سیدو یکوبو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جھاڑیوں سے 87 لاشیں ملی ہیں اور ہمارے لوگ مزید لاشیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بات صحافیوں کو بتائی جو بورنو کے گورنر کاشم شتیما کے ہمراہ جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے لیے گئے تھے۔
ایک سیکورٹی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شدت پسند ٹولوں کی شکل میں بیس ٹرکوں پر سوار ہو کر آئے تھے اور ان کے پاس طیارہ شکن توپوں سمیت دیگر بھاری ہتھیاروں موجود تھے۔
جائے وقوعہ سے زندہ بچ کر آنے والے ایک شخص مالم مانو نے ریاست بورنو کے دارالحکومت میدوگری میں صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آور فوجی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔

فوجی جنرل محمد یوسف نے بتایا کہ دہشت گردوں سے لڑائی کے دوران فوج کے پاس ہتھیاروں کی کمی ہو گئی تھی۔
شتیما نے اس حملے کو بربریت اور غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے متاثرین کو مالی امداد دینے کا اعلان کیا۔
اس حملے کے مقاصد ابھی تک سامنے نہیں آسکے لیکن بوکو حرم اس سے قبل مقامی افراد کی جانب سے فوج کی معاونت کرنے پر ان سے انتقام لے چکی ہے۔
مقامی افراد نے بتایا کہ حملہ آوروں نے بورنو کے رہائشیوں کو شناخت کے بعد علیحدہ کر لیا جبکہ دیگر علاقوں کے رہائشی افراد کو چیک پوسٹ سے جانے دیا۔
شدت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ نائجیریا میں اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں لیکن ان کے مقاصد دن بدن بدلتے رہتے ہیں جہاں عام طور ان کی جانب سے بے بس شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
مئی میں حکومت نے شمال مشرقی علاقوں اور بوکو حرم کے گڑھ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے گروپ کی چار سالہ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک آپریشن شروع کا تھا۔
فوج نے اس آپریشن کے دوران بڑے پیمانے پر کامیابی کا دعویٰ کیا لیکن بوکو حرم کی جانب سے مستقل حملوں نے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد حکومت نے بورنو میں فون نیٹ ورک بند کر دیے تھے اور فوج کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد شدت پسندوں کو آپس میں رابطوں سے روکنا ہے۔
سن 2009 سے اب تک شدت پسندی کے واقعات میں ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔